محمد ریاض ایڈووکیٹ
خط لکھنے لکھانے کا رواج صدیوں پرانا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں خط و کتابت ای میل، ایس ایم ایس، وٹس ایپ ایسی جدت اختیار کرچکی ہے جسکی بدولت اپنا صوتی اور ویڈیو پیغام سیکنڈوں میں ارسال کردیا جاتا ہے۔ ہماری نئی نسل تو خط و کتابت کے صدیوں پرانے طریقہ کو تقریبا بھول ہی چکی تھی مگر پاکستانی سیاست کے رنگ ہی نرالے ہیں جسکی بدولت اک مرتبہ پھر سے خط و کتابت کے چرچے عام ہوچکے ہیں۔ کبھی اعلی عدلیہ کے ججوں کے خطوط تو کبھی سابق وزیر اعظم کی جانب سے عمران سیریز خطوط کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عدلیہ میں خط و کتابت کا سلسلہ ماضی قریب میں سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے شروع ہوا جب انہوں نے اپنے چیف جسٹس صاحبان کو عدالتی معاملات میں ہونے والی غیر آئینی و غیر قانونی سرگرمیوں بارے خط و کتابت کے ذریعہ آئین و قانون پڑھانے کی ناکام کوششیں کیں مگر انکے مہربانوں کی جانب سے خطوں کے جواب کی بجائے موصوف کو کسی نہ کسی پنگے بازی میں مبتلا کئے رکھا گیا۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے خط وکتابت کا حشر سب کے سامنے آچکا ہے۔ سپریم کورٹ جاتے جاتے جسٹس عامر فاروق نے اپنے ساتھی ججوں کے خطوں میں لکھے گئے اعتراضات کو آئین و قانون کے تحت مسترد کردیا۔ اور اسی طرح سپریم کورٹ کے ججوں کا خط جس میں سپریم کورٹ میں مزید ججوں کی بھرتی روکنے کی درخواست اور بعدازاں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کا بائیکاٹ انتہائی بے تکا اور بے بنیاد تھا۔ جبکہ ٹھیک چند دن بعد سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تعیناتی روکنے کے لئے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والے معزز ججوں نے نہ صرف تقریب حلف برداری میں شرکت کی بلکہ نئے نویلے ججوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے جپھیاں بھی ڈالیں۔ یہ تو بالکل ایسی صورتحال بنی جیسے کوئی شخص کسی کے رشتے میں حد درجہ رکاوٹیں ڈالے مگر پھر بھی شادی طے ہوجائے تو رکاوٹیں ڈالنے والا شخص سب سے پہلے بارات میں بھنگڑے ڈالتا دیکھائی دے۔
راقم نے گذشتہ تحریر '' آرٹیکل 200 اور سیاسی ہنگامہ '' میں آئین و قانون کے حوالہ جات دیکر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں اور سپریم کورٹ کے چار ججوں کے خطوط آئین و قانون سے ہٹ کر بے تکے و بے معنی ہیں اور عرض کیا تھا کہ معزز جج صاحبان کو خط و کتابت اور بیان بازی کرنے سے پہلے آئین پاکستان کاازسر نو مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کی جانب سے آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحبان کو لکھے گئے خطوط کسی صورت دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے خطوط ردی کی ٹوکری میں جاتے ہیں۔ آرمی چیف نے عمران خان کے خطوط پر اپنے ردعمل پر کہا کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا، خط ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا اور خط وزیراعظم کو بھجوا دوں گا، خط کی باتیں سب چالیں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی ہے کہ یہ جماعت سیاسی لوگوں کی بجائے یو ٹیوبروں اور تماش بین ایسے افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔ جو جتنا زیادہ بدتمیزی کا مظاہرہ کرے وہ اتنا ہی بڑا عہدہ حاصل کرنے کا حقدار قرار پائے گا۔ تازہ ترین مثال صوبہ خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلی کا منصب ہے۔ بشمول تحریک انصاف سیاسی ورکرز پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شہری کسی صورت علی امین گنڈا پور ایسے شخص کو اس عہدہ کے قابل نہیں سمجھتا مگر صورتحال سب کے سامنے ہے کہ کیسے اک غیر سنجیدہ شخص کو کروڑوں افراد کے صوبہ کا حاکم بنا دیا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے عثمان بزدار نالائق شخص کو 12 کروڑ افراد کے صوبہ پنجاب کا حاکم بنا دیا گیا تھا۔
گذشتہ کالم میں جس طرح ججز کو آئین کا ازسرنو مطالعہ کا مشورہ دیا تھا اسی طرح سابق وزیراعظم کو مشورہ ہے کہ اپنے اردگرد خوشامدی و بدتمیز ٹولے کو ہٹائیں اور سنجیدہ سیاستدانوں کو قریب کریں کیونکہ سیاستدان ہی ہر مشکل سے راستہ نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو چور ڈاکو کہنے کا راگ الاپنا بند کریں۔ خود کو اور اپنی سیاسی جماعت کو مصیبتوں کی دلدل سے نکالنے کے لئے سنجیدہ کوششیں شروع کریں، جسکے لئے سب سے پہلے آپکو کم از کم دو تین ماہ کے لئے اپنی زبان بندی کرنا ہوگی۔ کیونکہ جناب کے آئے روز بیانات معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو اپنے خطوط کو خود پڑھیں اور سوچیں کہ دوران اقتدار آپ نے سیاسی مخالفین کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا اور ایک صفحہ پر موجود افراد کے کندھوں کو استعمال کرکے سیاسی مخالفین کی زندگیوں کو کس قدر اجیرن بنائے رکھا۔ آج آرمی چیف کو جیل سہولیات کے فقدان کی شکاتیں لگانے سے پہلے امریکہ میں کی گئی تقریر کو یاد کریں جب آپ نواز شریف کے کھانے، ادویات اور ایر کنڈیشنر کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ ورنہ یاد رہے خط و کتاب صرف ڈراموں اور فلموں ہی میں اچھی لگتی ہے جب عاشق اپنی محبوبہ کو خط لکھ لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اور محبوبہ اپنے عاشق کے خوشبودار خطوں کو سینے سے لگائے ٹھنڈی آہیں بڑتی ہے اور عاشق و مشعوق گنگناتے پھرتے ہیں:
لکھے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے
سویرا جب ہوا تو پھول بن گئے جو رات آئی تو ستارے بن گئے
واپس کریں