دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آرٹیکل 200 اور سیاسی ہنگامہ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
رواں ماہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد لاہور، بلوچستان، سندھ ہائیکورٹس سے تین ججز جن میں جسٹس محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کردیا گیا۔ ہائیکورٹ ججزکی دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر پرہیجانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے اور اس امر کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ خود اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے اس اقدام کو غیر قانونی اور آئین سے فراڈ قرار دیا۔ کہیں چند وکلاء اورچند وکلاء تنظیمیں حکومتی اقدام کی مذمت کررہی ہیں تو کہیں ججزکی عاشق معشوق خط و کتابت میڈیا کی زینت بن رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک جج اور نئے نویلے خط لکھنے والے سپریم کورٹ کے چار ججوں نے تو یہاں تک کہہ دیاہے کہ ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے لئے دوبارہ سے حلف اُٹھانا لازم ہے۔ یاد رہے کہ آئینی عہدیدران و اداروں کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی نوٹیفیکیشن/ حکم نامہ/ہدایت نامہ کے ساتھ آئینی و قانونی شق کا حوالہ دینا لازم قرار پاتا ہے۔ اب ہائیکورٹ ججز تبادلوں کے نوٹیفکیشن کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر درج ہے کہ صدر مملکت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 200 کے تابع ججز کا تبادلہ کیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کیا آئین میں آرٹیکل 200 کا اضافہ یا اس آرٹیکل میں ترامیم 26ویں آئینی ترمیم کی بدولت ہوئی ہیں۔ یا پھر یہ آرٹیکل 1973 ہی سے آئین کا حصہ ہے؟ اسکا سادہ اور آسان سا جواب یہی ہے کہ آرٹیکل 200 اسی دن سے آئین کا حصہ ہے جس دن سے آئین نافذ العمل ہوا۔ آرٹیکل 200 کیا ہے؟ آئیے اسکا مطالعہ کرتے ہیں:
آرٹیکل 200 کے مطابق: صدر، ہائیکورٹ کے کسی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں منتقل کر سکتا ہے، لیکن کسی جج کو اس کی رضامندی کے بغیر اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں، جج سے مراد ہائیکورٹ کا جج جبکہ چیف جسٹس (ہائیکورٹ) نہیں ہے مگر ہائیکورٹ کا ایسا جج جو قائم مقام چیف جسٹس ہائیکورٹ کے طور ذمہ داریاں ادا کررہا ہو۔ جہاں کسی جج کو ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے علاوہ کسی اور جگہ پر جج کے علاوہ کسی اور عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے، تو وہ اس مدت کے دوران جس کے لیے وہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر کام کرتا ہے جس میں اس کا تبادلہ ہوا ہے، یا اس طرح کے دوسرے عہدے پر فائز ہے، اس کی تنخواہ کے علاوہ الاؤنسز اور مراعات کا حقدار ہوگا جسکا تعین صدارتی حکم نامے کے ذریعہ کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں ہائی کورٹ سے مراد ہائی کورٹ کا کوئی بھی بینچ ہے۔
محترم قارئین! اُمید ہے آرٹیکل 200 کے مطالعہ سے یہ بات تو طے ہوچکی ہوگی کہ حال ہی میں ہائیکورٹ ججز تبادلوں کا عمل کسی طور پر غیرآئینی و غیر قانونی یا فراڈ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اقدام عین آئین کے مطابق ہے۔ اب یہاں پھر اک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخ میں اس سے پہلے بھی کبھی ہائیکورٹ ججز کے تبادلے ہوئے ہیں۔ جی بالکل تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سابق چیف جسٹس صاحبان، جن میں جسٹس سردار محمد اسلم سال 2003تا فروری 2008تک لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج فرائض انجام دیتے رہے پھر 9فروری 2008اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنا دیئے گئے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان 2006 لاہور ہائیکورٹ میں جج تعینات ہوئے اور جنوری 2011میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ اسی طرح جسٹس بلال خان بھی 2008 تک لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دیتے رہے اسکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کئے گئے۔
یہاں اک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں جج تعینات ہونے کے لئے جج کا اسلام آباد کا ڈومیسائل ہونا لازم ہے؟ اسکا جواب اسلام آباد ایکٹ، 2010کے سیکشن 3 میں موجود ہے:جسکے مطابق: اسلام آباد ہائی کورٹ ایک چیف جسٹس اور دیگر ججوں پر مشتمل ہوگی جو آئین کے مطابق پاکستان کے صوبوں اور دیگر علاقوں سے مقرر کیے جائیں گے۔
ججز تبادلوں پر معترض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آئین و قانون میں ٹرانسفر کی اجازت تو ہے مگر چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کو ٹرانسفر کرنے کا اقدام حکومت کی بدنیتی یعنی موجودہ ججز کو کنٹرول کرنا ہے تو اسکا سادہ سا جواب یہی بنتا ہے کہ جب ججز آئین و قانون میں درج اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر سیاست کرنا شروع کریں گے تو پھر سیاستدانوں کے پاس سوائے سیاست کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہوگا کیونکہ سیاست کرنا تو پھر سیاستدانوں کا ہی کام ہے نا کہ معزز جج صاحبان کا۔
بحیثیت قانون و سیاست کے طالب علم، میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی معاملے پر میں نہ مانوں والی سیاست و بیان بازی اور خط و کتابت سے پہلے آئین و قانون میں درج شقوں کا مطالعہ کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اور یہ بات کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی کہ معزز جج صاحبان کو خط و کتابت اور بیان بازی کرنے سے پہلے آئین پاکستان کاازسر نو مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
واپس کریں