
عوام کو اتنا مذہبی بناؤ کہ وہ اپنی محرومیوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیں کیونکہ عقیدت مند کے پاس علم نہیں ہوتا وہ سنی سنائی باتوں پر چلتا ہے جبکہ علم والا عقیدت مند کبھی نہیں ہوتا وہ ہمیشہ حقیقت پسند واقع ہوا ہے۔تاریخِ یورپ کے مطابق آج سے300 سال قبل عقلی بات کرنے والے پر توہینِ مذہب کے نام پر اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے جلا دیا جاتا تھا۔
اشٹبلشمنٹ اور ملائیت اپنے آپ میں بہت حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں لیکن معاشرے کی نفسیات کو غیر حقیقت پسندانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اگر عوام غیر حقیقت پسندانہ سوچ رکھنے اور بھیڑ بکریاں نہیں بنے گی تو وہ یعنی ملائیت اور اشٹبلشمنٹ ہمارے چرواہے کیسے بنیں گے اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیئے ہمیں کیسے ہانکیں گے؟ اسی لیئے دنیا کی ملائیت اور اشٹبلشمنٹ کی پالیسیاں انسانوں کو مہذب شہری نہیں بنے دیتیں بلکہ پوری پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ قوم کے بجائے بے ہنگم ہجوم بنادیئے جاتے ہیں کیونکہ مقصد عوام کی انفرادی پہچان کو ختم کر کے انہیں ماب یا ہجوم میں تبدیل کرنا ہے۔ بالفاظِ دیگر عوام کو مختلف گروہوں،قوموں،ذاتوں اور سیاسی و مذہبی فرقوں میں اسی لیئے تقسیم کیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم کے خلاف متحد ہو کر آواز نہ اٹھا سکیں اور اس طرح یہیں سے ہی آذاد شہری اور شخصی آذادی کا نظریہ فوت کر دیا جاتا ہے گویا جیسے شہریوں نے انفرادی طور پر اپنے اپنے حقوق ریاست کے سامنے سرنڈر کر دیئے ہوں۔
اگر ہمیں ایک ایٹمی طاقت بننے کے باوجود ابھی تک اوسطاً5 سال کی تعلیم رکھنے اور 40فیصد ناخواندہ قوم رکھا گیا ہے تو اس بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں، اسی باعث عبادات کے تصور کو محض مسجد، مندر اور گرجا گھر تک محدود بنا دیا گیا ہے تا کہ عملی زندگی میں انسان اپنی مقدس کتابوں میں حقائق اور نظریات پڑھ کر اپنے حقوق کے حصول کے لیئے کہیں ملائیت اور اشٹبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑا نہ ہو۔
گو کہ عالمی مرحلہ وار جائزہ (Universal Periodic Review) اقوام متحدہ کا ایسا نظام ہے جس میں تقریباً ساڑھے چار سال بعد ہر ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ رواں سال پاکستان بھی عالمی مرحلہ وار جائزہ کے تحت اس عمل سے گزرے گا لیکن اس مشق کا جو نتیجہ نکلے گا وہ تو ابھی سے ہی ہمارے سامنے ہے جیسے کہ تعلیم اور صحت سمیت عوام کی بنیادی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر اشرافیہ،دفاع اور حکومتی عیاشیوں کے لیئے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی قومی بجٹ میں بھاری رقوم مختص کر دی گئی جائیں گی۔ یاد رہے، پاکستان میں 40 فیصد سے زائد گھرانے شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے پاکستانیوں کی تعداد8 کروڑ95 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔
یاد رکھیے گا، انسانیت اس وقت بے ضمیر ہو جاتی ہے جب اسے معاشی تنگی میں مبتلا کر دیا جائے کیونکہ جب تک انسان کھانے پینے کی فکروں سے آزاد نہیں ہوجاتا وہ ایک منزل سے دوسرے منزل میں ترقی نہیں کر سکتا۔شائد یہی وجہ ہے کہ آئے روز پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود پٹرول لینے والوں کی قطاروں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے بجائے اس کے کہ اس بابت ملکِ پاکستان کے”باضمیر اور غیور عوام“ کی جانب سے ٹھنڈے کمروں اور گھروں سے نکل کر عوامی نمائندوں کی پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کیا جائے۔
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے !
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
واپس کریں