دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امریکی ٹیرف کے پاکستان پر معاشی اثرات ۔ کاشف اشفاق
No image امریکہ نے پاکستان سمیت درجنوں ممالک پر عائد کیا گیا اضافی ٹیرف اگرچہ عارضی طور پر واپس لے لیا ہے لیکن اب بھی دس فیصد یونیورسل ٹیرف اپنی جگہ برقرار ہے۔ علاوہ ازیں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ امریکی صدر کسی بھی وقت کسی بھی ملک پر اضافی ٹیرف لگا کر امریکہ میں اس کی مصنوعات کی آمد کو محدود یا ختم کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے ٹیرف کے نفاذ کی پالیسی واضح طور پر چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر ٹیرف میں اضافے کی وجہ سے جہاں عالمی معیشت دبائو کا شکار ہے وہیں پاکستان کو بھی دوہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بات نوشتہ دیوار نظر آ رہی ہے کہ اگر چین اور امریکہ کے مابین یہ تجارتی جنگ جاری رہی تو اس سے نہ صرف عالمی سطح پر کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ پاکستان کی کمزور معیشت کو بھی مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ 2018ء میں صدر ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں بھی چین پر ٹیرف نافذ کیا گیا تھا جس پر چین نے خاموش سفارتکاری کرکے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر اکتفا کیا تھا۔ تاہم اس مرتبہ چین کا رویہ بھی جارحانہ ہے جس کی بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ چین کی دوراندیش قیادت نے اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے پہلے ہی تیاری کر رکھی تھی۔ اس وقت بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ چین کو امریکی مارکیٹ کے کھو جانے کی کوئی فکر نہیں بلکہ شاید اس نے امریکہ کی مارکیٹ تک رسائی محدود ہونے کی صورت میں اپنے لئے متبادل پالیسی پہلے سے تیار کر رکھی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ پاکستان کی برآمدات کا سب سے بڑا گاہک ہے اور دوسری طرف چین کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بازار پہلے ہی چین کی بنی ہوئی مصنوعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں چین پاکستان کو رعایتی قیمتوں پر برآمدات میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان کے پاس چینی درآمدات کو روکنے یا محدود کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اگر چین نے امریکی مارکیٹ سے محروم ہونے کے بعد اپنے سامان کی فروخت بڑھانے کیلئے دیگر ممالک کا رخ کیا تو یورپی ممالک اس کا پہلا ہدف ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے مینوفیکچرر کے طور پر چین اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ مصنوعات تیار کرتا ہے۔ اس لئے یہ خطرہ موجود ہے کہ یورپی ممالک کی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کی مانگ بڑھانےکیلئے بھی چین اپنی مصنوعات کی قیمت کم کر سکتا ہے۔ اس طرح ناصرف پاکستان کی مقامی مارکیٹ کیلئے چینی مصنوعات کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستانی برآمد کنندگان کو یورپی منڈیوں میں بھی چین سے سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے پاکستان کے ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سیکٹر کیلئے مشکلات بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ چین یورپی خریداروں کو اپنی مصنوعات کی طرف راغب کرنےکیلئے بڑی رعایت اور کم قیمتوں کی پیشکش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح پاکستان کو چین ،بنگلہ دیش اور بھارت جیسے دیگر تجارتی حریفوں کی طرف سے بھی شدید مسابقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے ٹیرف کے نفاذ کی پالیسی برقرار رہنے سے امریکہ میں ممکنہ اقتصادی سست روی اور کساد بازاری کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید میں کمی کے باعث بھی پاکستان کی برآمدی مصنوعات کی فروخت میں کمی کا اندیشہ ہے۔ اس لئے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ٹیرف کے نفاذ کو ختم یا کم کروانے کیلئے زیادہ تیزی اور سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے حریف تجارتی ممالک ویتنام، ہندوستان اور بنگلہ دیش پہلے ہی امریکہ سے بہتر تجارتی معاہدوں کیلئے مذاکرات شروع کر چکے ہیں۔ اس وقت امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تجارتی سرپلس متوازن بنانے کے مواقع موجود ہیں جنہیں بہتر مذاکرات کے ذریعے دوطرفہ بہتر تجارتی تعلقات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے پاکستان کی طرف سے امریکی اشیا پر درآمدی ٹیکس کو مکمل طور پر ختم کرکے تجارتی توازن کو بہتر بنایا جا سکتا ہے تاکہ امریکہ سے ہماری درآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ علاوہ ازیں امریکہ کیساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر بھی دستخط کئے جا سکتے ہیں۔ امریکہ سے بہتر تجارتی تعلقات اسلئے بھی ضروری ہیں کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں سے 20فیصد امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں جن کی مجموعی مالیت پانچ ارب ڈالر سے زائد ہے اور اس میں 70سے 80فیصد حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان کے پاس امریکہ کی طرف سے دیگر ممالک پر عائد ٹیرف کی وجہ سے عالمی نمو میں ممکنہ کمی سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی موجود ہے۔ امریکہ کی طرف سے ٹیرف کے نفاذ کے باعث تیل کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان کو ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کی بچت ہونے کا امکان ہے جس سے تجارتی خسارے کو کم کرنے، کرنسی کو مستحکم کرنے، زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط بنانے اور افراط زر پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر پاکستان نے سی پیک کے منصوبے کو بروقت مکمل کر لیا ہوتا تو ابتک اس منصوبے کے اگلے مرحلے میں پاکستان میں چین کی صنعتوں کی منتقلی سے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ درپیش چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کے پاس اب بھی یہ آپشن موجود ہے کہ وہ چین سے مذاکرات کرکے اسے اپنی صنعتیں پاکستان منتقل کرنے یا ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر آمادہ کرے۔ اس سے ایک طرف دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے گا تو دوسری طرف چین اپنی برآمدات بڑھانے میں حائل رکاوٹوں کو بھی کم کر سکتا ہے۔
واپس کریں