دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا یہ درست ہے کہ پی- ٹی- آئی دہشتگرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے؟
شکیل انجم
شکیل انجم
جھوٹ کی ایجاد و ابتداء بھی خود رو پودے کی طرح اسی وقت ہو گئی تھی جب انسانی معاشرے کا ارتقاءعمل میں آیا اور جھوٹ بھی جرائم اور دوسری برائیوں کے ساتھ زمین پر اترا اور انسانی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی یہ انتہائی زہریلی وباؤں اور خطرناک اشکال میں انسان کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا اور شیطان کے پیروکاروں کے لئے’’عزت و وقار‘‘ کا باعث بنا۔یہی جھوٹ قومی سیاست میں ضم ہوا اور U-Turn کی صورت میں متعارف ہوا تو’’سیاسی شعور‘‘ کے طور پر لیا جانے لگا اور اس پر فخریہ طور پر عمل کیا جانے لگا، جو سیاست میں غلاظت اور خودغرضی جھوٹ کی صورت میں داخل ہوئی اور سیاست عبادت کی بجائے گندی گالی بن گئی۔ناقدین کا ماننا ہے کہ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کی ترجیحات صرف پارٹی قائد عمران خان کی رہائی یا قیدی کے طور پر زیادہ سے زیادہ رعایتیں اور سہولتیں حاصل کرنے پر مرکوز ہوئی ہے، پارٹی رہنماؤں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور پرانے اور نئے قائدین ایک دوسرے کی طرز سیاست اور سیاسی کردار پر سنگین تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جماعت کے دیرینہ اور نووارد رہنما ایک دوسرے کے طریقِ سیاست اور سیاسی کردار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔دونوں مکاتب فکر کے رہنما آپس میں لفظی طور پر دست و گریبان ہیں، دیرینہ اور بزرگ زیرک سیاستدان نووارد اور فصلی رہنماؤں کے درمیان شدید جنگ شروع ہو چکی ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ پارٹی کے بزرگ اور نووارد سیاستدانوں کے سیاسی نظریاتی کے حامل بزرگ سیاستدانوں اور موقع محل کے مطابق’’نظریۂ ضرورت‘‘ پر یقین رکھنے والے ’’حادثاتی سیاستدانوں‘‘ کے درمیان سوچ کی وسیع و عریض خلیج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی باہمی اعتماد کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ویسے تو ملک میں بیشتر سیاسی جماعتیں جھوٹ پر قائم ہیں لیکن ایک چہرے پر کئی چہرے سجائے رکھنے اور جھوٹ کے گرد طواف کرنےوالے’’صادق و امین‘‘ کے نام پر کفر کرنے والوں کی رسی اگرچہ دراز ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ان کی اصلیت سامنے آنے پر پارٹی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جب سے پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کی ترجیحات صرف پارٹی قائد عمران خان کی رہائی یا قیدی کے طور پر زیادہ سے زیادہ رعایتیں اور سہولتیں حاصل کرنے پر مرکوز ہوئی ہیں، پارٹی رہنماؤں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور پرانے اور نئے قائدین ایک دوسرے کی طرز سیاست اور سیاسی کردار پر سنگین تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن پی-ٹی-آئی کا کوئی رہنما پارٹی میں غدر کی کیفیت کا ماننے کیلئے تیار نہیں اور اگر کوئی صحافی اس جنگ و جدل کی نشاندہی کر دے تو اس کے خلاف گند بکنا شروع کر دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی نے پی-ٹی-آئی کے سینئر سیاستدان سے گفتگو کے حوالے سے ایک تجزیاتی رپورٹ میں پارٹی کے اندر انتشار کا اشارہ کیا تو جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہو، ایسے ایسے لوگ جنہیں قلم پکڑنا بھی معلوم نہیں لیکن خود کو ’’صحافتی راسپوٹین‘‘ ثابت کرنے کی دھن میں رہتے ہیں، اس دھن میں ایسی ایسی بونگی مار جاتے ہیں کہ ان کی’’صحافتی بلوغت‘‘ پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے لیکن ان کی ڈھٹائی نکتۂ عروج پر ہے کہ اگلے روز محمد علی جوہر بن کر غلط اور بے تکی بحث کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ انصار عباسی کا شمار ان چند جید صحافیوں میں ہوتا ہے جو من گھڑت خبر پر یقین نہیں رکھتے اور پورے یقین اور تصدیق کے بعد خبر دیتے ہیں لیکن یہ’’ہائبرڈ صحافی‘‘ ان کو بھی اپنی طرح ’’کوتاہ قد‘‘ سمجھتے ہیں۔پی-ٹی-آئی کے ’’ڈرم بیٹرز‘‘ عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے ان سوالات کو سننے اور ان کا منطقی جواب دینے کی جرات نہیں رکھتے کہ کیا تحریک انصاف یا عمران خان اسرائیل اور یہودیوں کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں اور بھارتی ایجنڈے کے تحت علیحدگی پسند تنظیموں کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے؟ اگر یہ تاثر غلط ہے تو کیوں عمران خان اور ان کی پارٹی اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلے الفاظ میں مذمت نہیں کی؟ کیوں جعفر ایکسپریس پر بلوچستان لبریشن آرمی نامی دہشتگرد تنظیم کےحملے کے نتیجے میں درجنوں مسافروں کی ہلاکت پر پارٹی سطح پر مذمتی بیان جاری نہیں کیا؟ اور سب سے اہم یہ کہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں کس سازش کے تحت 42ہزار دہشتگردوں کو افغانستان سے لاکر پاکستان میں آباد کیا جو ملکی سلامتی کیلئے ہمیشہ خطرے کی تلوار بن کے سر پر لٹکتی رہتی ہے؟ اور کیا یہ درست نہیں کہ انہی دہشتگردوں کے ذریعے ملک میں دہشتگردی پھیلائی جارہی ہے؟؟
واپس کریں