عمران کو اقتدار کیلئے ’’عزم استحکام‘‘ نہیں ’’عدم استحکام‘‘چاہئیے؟
شکیل انجم
جمہوریت پر ایمان رکھنے والے طبقہ میں یہ تاثر کیوں جڑیں پکڑ رہا ہے کہ آمریت کے ہر دور میں مارشل لاء ایڈمنسٹیٹرز کو آئین کو روندنے کی اجازت دینے والی عدالتیں آج بھی آئین کے نام پرغیر جمہوری قوتوں کے پیچھے کھڑی دکھائی دیتی ہیں لیکن مورخ سوال کرے گا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عمران خان عزم استحکام نہیں عدم استحکام کے حامی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں، کیا نظام عدل ملک کو ڈوبتے دیکھتا رہے گا؟ یا وہ کسی انجانے خوف کا شکار ہے؟ماضی کی تاریخ بلا رغبت و /عنائت رعائت یہ لکھ چکی ہے جنرل ضیاءالحق کے بدترین دور آمریت میں جہاں عدل کے ضابطوں کی دھجیاں بکھیر کر اپنی مرضی کا انصاف حاصل کرنے کے لئے پہلے سے لکھے فیصلوں پر مقدموں کی سماعت کی جاتی تھی، جب’’نوکریوں‘‘ کے خوف کے مارےایڈہاک ججز کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، اسی نظام نے ذولفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لئے پھانسی چڑھا دیا اور ضیاءالحق کے طرز آمریت پر یقین رکھنے والے عمران خان اپنے دور آمریت میں مخالفین کےسیاسی کیرئر کو تباہ کرنے کے لئے لمبی سزائیں دلائی گئیں، اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے "جرم" میں میاں نواز شریف کو تاحیات نااہلی کی سزا دی۔جنرل ضیاءالحق نے جہاں آئین اور عدل کے ضابطوں کو طاق میں رکھتے ہوئے نظریۂ آمریت کے زیر اثر "نظریۂ ضرورت" متعارف کرایا اور اس کی’’حفاظت‘‘ طاقت کے زور پر کی جبکہ عمران خان اسی نظریۂ ضرورت کو آئین کا حصہ تصور کرتے ہوئے عدالتوں سے مرضی کے فیصلے حاصل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں یہاں تک کہ شروع میں ایوان عدل نے عمران خان کی خواہش پر جیل کی پوری بیرک جس میں آٹھ سیل تھے، انیکسی میں تبدیل کیا، عمران خان کی خواہش پر اس پر تعیش انیکسی میں ورزش کے لئے جدید جم کی سہولت مہیا کی، ریاست اور ریاستی اداروں کو تاراج کرنے اور فوج اور جی ایچ کیو اور کورکمانڈر ہاؤس پر منظم حملوں، فوج کو تقسیم کرنے اور سب سے زیادہ یہ کہ پاکستان دشمن ایجنڈے کے مطابق ملک کی اساس کو نقصان پہنچانے کے قومی جرائم میں ملوث اس ملزم کو اس قدر مراعات’’عطا‘‘ کرنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا جیل میں ایسی شاہانہ سہولیات اور مراعات ذوالفقار علی بھٹو یا میاں نواز شریف کو بھی دی گئی تھیں؟ کیوں عمران خان کی خواہشات کے مطابق خصوصی ناشتے کے علاوہ دوپہر اور رات کے کھانوں کے لئے دیسی گھی اور مکھن میں بنی ہوئی دیسی مرغی اور بکرے کے گوشت کے پکوان مہیا کرنے کا حکم دیا گیا؟ اور اب’’جیل انیکسی‘‘ کو ملک اور ریاست کے خلاف سیاسی سازشوں کے ’’اکھاڑے‘‘ میں تبدیل کرنے کی ابتدا کردی گئی ہے کیونکہ گزشتہ جمعرات کو عمران خان نے تحریک انصاف کے تمام دھڑوں کو اپنی’’جیل انیکسی‘‘ میں طلب کیا تھا تاکہ متحد ہوکر ریاست کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کی جاسکے لیکن حکومت نے مصلحت کے تحت قرار دیا کہ ’’جیل انیکسی‘‘ میں سیاسی ’’اجتماعات‘‘ میں ریاست سے ٹکراؤ کی منصوبہ بندی نئے 9 مئی برپا کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا جواس لئے 9 مئی 2023 سے کہیں زیادہ قومی سلامتی کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس مزاحمتی تحریک میں عمران خان کے دور حکومت میں وہ 42 ہزار شرپسند عناصربھی ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے جنہیں ملک کی مختلف جیلوں سے نکال کر سرحدی علاقوں میں آباد کیا گیا۔یہ تحریک خانہ جنگی کی بنیاد ہوگی۔ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کی سازش کا اعلان خود تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کرتی پھر رہی ہے اور اس کی خفیہ تیاریاں خیبر پختونخوا کی حکومت کی نگرانی میں جاری ہیں جس کا پرچار جلسوں اور کارنر میٹنگوں میں برملا کیا جارہا ہے۔سیاست پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں کا عندیہ ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے مزاحمتی سیاست کی تحریک بہت آگے جاسکتی ہے جو قومی معیشت اور سلامتی کے لئے تباہ کن ہوسکتا ہے۔عمران خان نے دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے اور خود کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے جیل میں بھوک ہڑتال کا اشارہ دیا ہے جس کا مقصد بیرون ملک سے دباؤ ڈالنے کے لئے پاکستانی فوج کو نشانہ بناتے ہوئے عمران خان کی رہائی کے لئے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پاکستان اور ریاستی اداروں پر دباؤ بڑھایا جائے گا جبکہ اندروں ملک بڑے اور چھوٹے شہروں میں دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، بھوک ہڑتال خانہ جنگی کی ابتدائی شکل ثابت ہوسکتی ہے۔
بشکریہ جنگ
واپس کریں