دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اڈیالہ جیل کی ’’پر تعیش انیکسی‘‘ میں رہائش پذیر ’’مظلوم رہنما‘‘
شکیل انجم
شکیل انجم
یہ صرف خواب ہو سکتا ہےکہ اڈیالہ جیل میں ایک’’پر تعیش انیکسی‘‘ میں’’رہائش پذیر‘‘ ایک ’’رہنما‘‘منفی سیاست کی بساط بچھائے ایک بار پھر کسی چور دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کے لئے شطرنج کی بازیاں کھیل رہا ہے۔ایسی جیل جہاں سے بلاروک ٹوک اس ملک میں بے چینی، عدم استحکام، افراتفری، دہشتگردی اور بغاوت پر اکسانے کے لئے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے سوشل میڈیا بریگیڈز کو کنٹرول کرنا، وقت کے تقاضوں کے مطابق عہدیداروں کی اکھاڑ پچھاڑ اور وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کو انتشار اور افراتفری کی اصولوں کے تحت چلانا اور سیاسی اور قانونی مشاورت کے نام پر عدلیہ کے احکامات کے تحت آزادانہ وکلا اور پارٹی لیڈروں سے ملاقاتیں ان کا معمول ہیں۔اسے ہر جرم سے مبراء کرنے پر یقین رکھنے والی عدالتوں کو جو 9 مئی کی طے شدہ بغاوت کو بھی جھوٹ اور من گھڑت ماننے کے لئے تیار ہیں، کیسے یقین دلایا جا سکتا ہے کہ عمران خان ہر تخریبی کام طے شدہ منصوبے کے تحت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔وہ قوتیں جو اس’’رہنما‘‘ کو ہر جرم اور سزا کے تصور سے مبرا سمجھتی ہیں، تو ملک میں لاقانونیت، نسلوں کی گمراہی اور تباہی کا اندازہ کرنا ہے تو گزشتہ دس پرسوں پر نظر دوڑائیں جس کی ابتدا 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس چوک میں ایک طاقتور قوت کے اشارے پر شاہراہ دستور پر ایک طویل دھرنے کی صورت میں ہوئی اور انتہا 9 مئی تھی لیکن وہ قوت جو یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں تو یہ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا 2014 کے 126 روزہ دھرنے کے دوران عمران خان نے عوام کو بغاوت اور سول نافرمانی پر نہیں اکسایا تھا؟ کیا تحریک انصاف کے گمراہ نوجوانوں نے ریاست کے ٹیلی ویژن (پی-ٹی-وی) ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر کے نشریات بند نہیں کرائیں تھی؟ کیا کنٹینرز پر کھڑے ہوکر سول نافرمانی کا اعلان نہیں کیا تھا؟ اور کیا بڑا سوال یہ کہ دھرنے کے دوران چین کے صدر کا دورۂ پاکستان رکوانے کے اسباب پیدا نہیں کئے؟ ان جرائم کی جانب سےچشم پوشی اس لئے کی گئی کہ عمران خان کے پیچھے اس وقت کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی اور وہ لانچ ہونے جارہے تھے! لیکن کیا قوم کے ساتھ انصاف ہوا یا صرف عمران خان کے پسند کا انصاف ہی’’لغوی انصاف‘‘ تھا۔تاہم جھوٹ، گالی اور بہتان کی سیاست کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر ماضی کی طرح اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں اور فوجی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے لئے’’فخر راولپنڈی‘‘ کی طرح گیٹ نمبر 4 پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور فوجی قیادت تک رسائی رکھنے والے ہر شخص کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے باقی لیڈرز سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن ٹاک شوز میں عمران خان کو مظلوم ظاہر کر کے مزید سہولتوں کا مطالبہ کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں اور حیرت ہے عدل کے ایوانوں سے اٹھنے والی باد صباء کا رخ بھی انہی کی سمت ہے، یہ ہوائیں سب کو مساوی ٹھنڈک نہیں دیتیں بلکہ عدل کے ضابطوں کے تحت نہیں چلتی بلکہ ان کی تقسیم بھی صاحب ثروت کے لئے ہی ہوتی ہے۔عمران خان کو جیل میں جیل مینوئل کے برعکس مزید سہولتیں مہیا کرنے کی ہدایات دینے والی قوتیں کبھی خود ملاحظہ کریں کہ اس شخص کو جو اپنے دور اقتدار میں جیلوں میں بند اپنے سیاسی مخالفین کی قید کوٹھڑیوں سے پنکھے، ڈیزرٹ کولرز، ٹی وی اور اس قسم کی اشیائے ضرورت اتروا کر کمزوروں کے خلاف طاقت کے استعمال پر غرور کرتے اور تکبرانہ تمسخر اڑاتے دیکھا گیااور آج وہ اپنی اس پر تعیش انیکسی اور اس میں مہیا کی گئی بیسیوں غیر ضروری سہولتوں پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید کا مطالبہ کرتے ہیں- اس انیکسی میں جدید طرز کا منی جم، ایئر کولر، مکمل کچن جس میں’’لاڈلے رہنما‘‘ کے لئے دیسی گھی میں بنے پسندیدہ کھانے تو تحریک انصاف کے ان لیڈروں کو شرم دلاتے ہوں گے جو عوام اور اسمبلیوں میں عمران خان کی مظلومیت کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن جیل انیکسی کی منی لائبریری میں رکھی کتب میں نیلسن منڈیلا کی اپنی تصنیفات کے علاوہ ان کی 27سالہ قید کی صعوبتوں پر لکھی گئی کتب کی موجودگی عمران خان کی دہری شخصیت کی قلعی کھول رہی ہے جو عہد حاضر کا نیلسن منڈیلا ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن انہیں یہ علم نہیں نیلسن منڈیلا تشدد، ٹکراؤ اور منافقت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھےاور اب شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنا آئیڈیل اور سیاسی گرو ماننے والے عمران خان کی زیر مطالعہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ ہے جس میں سے وہ پاکستان مخالف نقاط تلاش کرنے میں محو ہیں۔
واپس کریں