شکیل انجم
عوام کے ایک مخصوص طبقہ میں یہ تاثر قائم ہے کہ عمران خان ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اسرائیلی، بھارتی اور قادیانی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، ان کا پہلا ایجنڈا پاکستان کی معیشت کی کمر توڑنا ہے، اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا لیکن المیہ یہ ہے کہ اصلاح کا کوئی پہلو نکلتا دکھائی نہیں دیتا،اب تو تحریک انصاف کے جاں نثار بھی پریشان ہیں کیونکہ کسی کو خبر نہیں کہ عمران خان کس چینل سے بول رہے ہیں۔ان کی سیاسی زندگی میں کوئی ایک کارنامہ یا کام ایسا نہیں جس پر کوئی محب وطن پاکستانی فخر کر سکے اور عمران خان کو شرمندہ ہوئے بغیر اپنا رہنما تسلیم کرلے جبکہ اس کے برعکس عوام کی رائے ہے کہ عمران خان پوری سیاسی طاقت کے ساتھ ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا کر اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے عمران خان اقتدار کی ہوس میں کہاں تک جائیں گے، 2018 میں فوج کے کندھوں پر اقتدار میں آئے تو کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس سے قوم کا سر فخر سے بلند ہوا ہو۔بھارت کی خواہش پر کشمیر کا سودا کیا اور کوئی ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے یہ فرمایا کہ جو کشمیر میں جا کر لڑے گا وہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم کرے گا اور یوں تحریک آزادئ کشمیر کو دفن کرنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ ہی ایک مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’ میں مکمل طور پر نیوکلئیر پروگرام کے خلاف ہوں، جیسے ہی مسئلہ کشمیر حل ہوگا ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوگی، ہم دونوں ممالک امن کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے سی پیک اور پی آئی اے بند کرا دئیے۔آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کا دعویٰ کرنے والے نے اسٹیٹ بینک سمیت تمام معاشی ڈھانچہ ہی اس کے حوالے کردیا۔ 2014 میں چین کے صدر سی پیک کا معاہدہ کرنے آرہے تو 126 دنوں کے دھرنے نے یہ کوشش ناکام بنا دی اور اس بار بیلاروس کے صدر سرکاری اور کاروباری وفود کے ہمراہ پاکستان آئے تو پھر اسلام آباد پر یلغار کردی اور قومی نقصان کا اندازہ کئے بغیر پاکستان کے امن کے خلاف ’’اعلان جنگ‘‘ کردیا اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر کے سکون کی نیند سو گئے۔توقع یہی تھی کہ اس وقت جب معیشت کی استحکام کی جانب اڑان دکھائی دے دی، عمران نے ایک بار پھر معیشت کے راستےمیںبارود بچھانے کافیصلہ کیا اور وفاقی دارالحکومت پر حملے کی کمانڈ اس شرط پر وزیراعلیٰ گنڈاپور کے حوالے کردی کہ وہ صوبے کے تمام عسکری، انتظامی اور معاشی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مرکز پر حملہ آور ہوں گے۔اس کے بعد اپنے ہی کارکنوں کی لاشوں پر سیاست کرنے کی خواہش کے ساتھ یلغار کرنے والے رہنماؤں نے اس ملک کے دارالحکومت میں جس انداز میں امن وامان کے ساتھ جو کچھ کیا دنیا نے دیکھا۔میدان کارزار اختتام پذیر ہوا تو عمران خان کو جیل توڑ کر رہا کرانے میں ناکام ہونے والے’’رہنما‘‘ اپنے کارکنوں کو آگ میں جھونک کر فرار ہوگئے، جن میں بشریٰ بی بی پیش پیش تھیں جس کی تصدیق CCTV کیمروں کے ذریعے ہوگئی تھی جو فرار کے بعد اپنے کارکنوں کے قتل عام کا جھوٹا بیانیہ گھڑ کر دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔متقی اور پرہیزگاری کی دعویدار بشریٰ بی بی سمیت ہر’’رہنما‘‘ نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت کی تعداد بڑھا چڑھا کرپیش کرنےمیں سبقت حاصل کرنے اور گمراہ کن پروپیگنڈا کیا۔موجودہ حکومت کے دور میں تحریک انصاف کے دھرنوں اور احتجاج سے نمٹنے پر حکومتی اخراجات کےسرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18؍ماہ میں ان کے دھرنوں اور حملوں سے نمٹنے پر 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہوئے جب کہ پچھلے 6 ماہ کے دھرنوں اور احتجاج پر لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 80 کروڑ روپے کرائے پر لیے گئے 3 ہزار کنٹینرز کے مالکان کو ادا کیے گئے اور 90کروڑ سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوئے جب کہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب روپے کے اخراجات پولیس کے کھانے اور ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوئے۔ اس کے علاوہ 30کروڑ کے اخراجات ایف سی، رینجرز اور فوج کی تعیناتی پر ہوئے، اسلام آباد کے 12ہزار، پنجاب کے 16ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جب کہ ایک ارب 50 کروڑ روپے مالیت کی سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا اور عمران خان کی تخریبی انا کی تسکین ہو گئی اور گزشتہ روز جب ان کے خلاف 9مئی کے مقدمہ میں فرد جرم عائد ہورہی تھی، انہوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے پیغام جاری کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر تحریک انصاف کے قیدیوں کی رہائی اور 9مئی اور 26نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم نہ کیا گیا تو 14دسمبر سے ملک بھر میں سول نافرمانی کا آغاز کردیا جائے گا جس کے ابتدائی مرحلے میں بیرون ملک سے ترسیل زر بند کرائی جائے گی کیونکہ اس سال ترسیلات زر 35 ارب ڈالرز سے زائد کی توقع ہے۔
واپس کریں