شکیل انجم
پاکستان سنگین اندرونی اور بیرونی مشکلات کا شکار ہے۔یہ مشکلات کسی ڈراؤنے خواب کی طرح اس ملک کو گہری کھائی میں دھکیل رہی ہیں۔معاشی اور سیاسی بحران دامن گیر ہیں۔جدھر قدم بڑھائیں کسی دلدل کا سامنا ہے۔اندرونی اور بیرونی طور پر صیہونیت پسندوں کی یلغار اس ملک کی تباہی کے لئے کوشاں ہے۔ایک طرف تحریک انصاف کے قائد عمران خان ایک مربوط عالمی سازش کے تحت اس ملک اور اس کی سلامتی کے اداروں کو دنیا میں دہشتگرد ثابت کرنے کے لئے اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں اور پاکستان دشمن صیہونی فورمز کے ذریعے پاکستان کے خلاف زہریلی مہم چلانے میں مشغول ہیں اور دوسری جانب اسرائیل دوست ممالک دنیا میں پاکستانی مشنز کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ گزشتہ روز جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستان کے قونصلیٹ پر افغان نوجوانوں کے ایک گروہ نے بلاوجہ حملہ کیا، عمارت میں داخل ہوکر قومی پرچم کی توہین کی اور پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کی۔اس بلاجواز مظاہرے کے لئے فرینکفرٹ کی انتظامیہ نے باضابطہ اجازت نامہ جاری کیا۔شاید تحریک انصاف کی جانب سے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی عالمی مہم کے نتیجے میں پاکستان عالمی سطح پر اپنا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کا ہرسیاستدان، ہر ادارہ اور دنیا کا ہر ملک اس کی گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دینے کے لئے اپنا اپنا حصہ’’"پوری ایمانداری‘‘ سے ڈال رہا ہے۔ہر وہ سیاسی پارٹی، ادارہ یا فرد’’محب وطن‘‘ ہے جو اقتدار میں ہے یا طاقتور ہے اور طاقت کا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آئین اختیار ہونے یا نہ ہونے، دونوں صورتوں میں آئین کی تشریح اپنے حق میں کرنے کی کوششوں میں ہے لیکن وہ طبقے جن کے مفادات اس ملک سے وابستہ ہیں یا بالفاظ دیگر جنہیں اس ملک کو چوسنے کے مزید مواقع میسر ہیں، اس کی بوسیدہ دیواروں کو اس وقت تک سہارا دینے پر یقین رکھتے ہیں جب تک ان کے’’زیرتکمیل‘‘ مفادات مکمل نہیں ہو جاتے۔سیاسی پارٹیاں ذاتی مفادات کے لئے آپس میں دست و گریبان ہیں۔وقتی الحاق اور اتحاد کرنے والی پارٹیاں سیاسی اور معاشی مفادات کے لئے وقتاً فوقتاً اپنےاتحادیوں کی پالیسیوں کے خلاف بیان داغ کر اپنی اہمیت منوانے اور وقت آنے پر بلیک میل کرکے مفادات حاصل کرنے کا اشارہ ہوتا ہے۔گزشتہ دنوں پی۔ٹی-آئی کے بڑے خیرخواہ اور ماضی کے بدترین مخالف مولانا فضل الرحمن نے اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پی-ٹی-آئی خیبر پختونخواہ اورقومی اسمبلی سمیت مرکز اور تمام صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے پر آمادہ ہے، شاید یہ اشارہ انہوں نے اہم اتحادی ہونے کی حیثیت سے اپنی مستقبل کی حکمت عملی کے طور پر کیا ہو لیکن چیئرمین پی-ٹی-آئی بیرسٹر گوہر خان نے مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے انتہائی توہین آمیز انداز میں واضح کیا کہ مولاناسے اسمبلیاں تحلیل کرنے یا استعفوں کے حوالے سے کوئی مشاورت ہوئی اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ ہوا۔بیرسٹر گوہر کی اس حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی-ٹی-آئی کی اعلیٰ قیادت اور فیصلہ ساز کور کمیٹی کے نزدیک مولانا سے اتحاد کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ مولانا کی سیاسی طاقت سے استفادہ کرنا ہے۔دوسری جانب اہم ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کےآئینی اختیارات ماننے کے لئے تیار نہیں، ان کی یہ رسہ کشی خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ علی الاعلان عدلیہ کی جانب سے غیرآئینی اقدام پر عملدرآمد روکنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے جبکہ پی-ٹی-آئی کی قیادت سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بزور بازوعملدرآمد کرانے کی دھمکی دے چکی ہے جو پی-ٹی-آئی کی سیاسی خصلت کی عکاس ہے۔ ایک طرف دہشتگردی کی شدت میں اضافہ اور دوسری طرف پی-ٹی-آئی کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ سمیت عدلیہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا اور سنگین ٹرالنگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔بیک وقت دہشتگردی اور ملک گیر دھرنوں کی تیاریاں دہشتگردوں اور پی-ٹی-آئی کے گٹھ جوڑ کا اعلان ہے۔یہ سب علامات عدلیہ کے اس طبقہ کے لئے قابل توجہ ہے جو عمران خان کو ہر بڑے چھوٹے جرم سے آزاد کرکے اقتدار کی کرسی پر دیکھنا چاہتا ہے تاکہ انہیں اپنا ادھورا مشن مکمل کرنے کا موقع مہیا کیا جاسکے۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے ملک میں انتشار پھیلانے اور طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور دوسرا لیکن انتہائی سنگین اور خطرناک 9 مئی آئندہ 60 روز کے دوران ہونے کو ہونے کو ہے جب جلاؤ گھیراؤ اور حملوں کے علاوہ بغاوت اور سول نافرمانی کے ذریعے ملک کی تقسیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن دہشتگردوں اور دہشتگردی کو تحفظ دینے کی پالیسی معنی خیز ہے!
واپس کریں