بھارت کا پہلگام کشمیر میں 28 سیاحوں کی بلی چڑھا کر پاکستان کے خلاف ایک اور ناکام سازش کی کوشش

(خصوصی رپورٹ خالد خان)جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 28 سیاح ہلاک اور 11 زخمی ہوگئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو غیر ملکی بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اٹلی اور دوسرے کا اسرائیل سے ہے، جبکہ بیشتر سیاحوں کا تعلق بھارتی ریاست گجرات اور کرناٹک سے بتایا جاتا ہے۔
کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللّٰہ کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا یہ واقعہ پچھلے کئی سالوں میں شہریوں پر سب سے بڑا حملہ ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سیاحوں پر حملے کی مذمت کی ہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم مودی نے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کہا ہے۔
اس واقعے کے رونما ہوتے ہی ہندوستانی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بھارتی مبصرین غیر ذمہ داری اور پیشہ ورانہ بد دیانتی کی آخری سرحدیں پار کرتے ہوئے، بھارتی حکومت کو پاکستان پر چڑھائی کے لیے اکساتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ بھارتی ریاست اس حملے کو پاکستان کے خلاف چارج شیٹ بناتے ہوئے، اسے بین الاقوامی فورمز پر شد و مد کے ساتھ اٹھانے کی بھرپور تیاریوں میں نظر آ رہی ہے۔
دوسری جانب آزاد ذرائع کے مطابق اس خونریز سانحے کا کھرا بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف نکلتا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایک ہمہ جہت حکمت عملی کے تحت اپنے لوگوں اور اسرائیلی اور اٹلی کے شہری کو نشانہ بناتے ہوئے ہندوتوا مذہبی رسم کے طور پر ان کی بلی چڑھائی گئی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر، جو قابض ہندوستانی افواج کے ہاتھوں پہلے سے ہی معصوم مسلمانوں کا مذبَح خانہ بن چکا ہے، کے اس قربان گاہ میں مذموم مقاصد کے لیے اپنوں اور مہمانوں کا خون بہایا گیا۔
خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور پاکستان کی معجزانہ حکمت عملیوں کے تحت پاکستان نے بین الاقوامی طاقتوں کا توازن اپنی طرف موڑا ہے جس سے ہندوستان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں۔
امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہی عالمی اقتصادی، سیاسی اور معاشی صورتحال میں ایک ہلچل مچ چکی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جارحانہ اور بےباک پالیسیوں سے جہاں دنیا کو ششدر کر دیا، وہاں اس عالمِ حیرت کا پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
امریکہ کا خطے میں متعدد مفادات اور اہداف ہیں، جن میں افغان طالبان حکومت سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے وقت چھوڑے ہوئے اسلحے اور جنگی سازوسامان کی واپسی اور دیگر اقتصادی معاملات شامل ہیں۔ افغانستان کے بے تحاشا قدرتی وسائل اور معدنیات سے استفادہ، جس سے سرِ دست چین بلا شرکت غیرے مستفید ہو رہا ہے، امریکہ کا ایک اور جائز ہدف ہے۔
افغانستان کی بعض معدنیات خلائی ٹیکنالوجی اور جدید عسکری سازوسامان میں بھی استعمال ہوتی ہیں، جبکہ اس کا صنعتی مصرف اس کے علاوہ ہے۔
امریکہ کو پاکستان کی جانب سے یہ یقین دہانی اور تعاون چاہیے تھا کہ ان امریکی مفادات کا تحفظ کیا جائے، جو پاکستان ان کو دے چکا ہے۔
پاکستان نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر امریکہ کو پاکستان کے بے پناہ معدنی وسائل میں سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کی پیشکش کی، جس میں امریکی حکومت اور امریکی سرمایہ کاروں نے از حد دلچسپی لی ہے۔
پاکستان نے امریکہ اور متعلقہ تمام عالمی اداروں، فورمز اور ممالک پر استدلال کے ساتھ واضح کیا ہے کہ افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ اور جدید فوجی سازوسامان صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے ایشیا کے لیے شدید سیکیورٹی خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ، بین الاقوامی اداروں اور معتبر مغربی ابلاغ عامہ کے ذرائع نے مصدقہ اطلاعات فراہم کی ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کا متروکہ اسلحہ مختلف دہشت گرد گروہوں کو فروخت کیا جا چکا ہے۔
مذکورہ اسلحے کا استعمال دیگر دہشت گرد کارروائیوں کے علاوہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے دوران بھی ہوا ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں دہشت گرد سیکیورٹی فورسز اور سویلین پر حملوں کے وقت یہی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کو مزید محفوظ بنانے اور افغان مہاجرین کی پاکستان سے انخلا کی رواں پالیسی نے جہاں پاکستان کی سیکیورٹی کو بہتر کیا ہے، وہاں بین الاقوامی سطح پر بھی صورتحال کی حقیقت کا صحیح ادراک ہو چکا ہے۔
امریکہ ان نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے جہاں پاکستان کا ہم خیال ہو چکا ہے، وہاں پاکستان نے کمالِ فن سے دیرینہ دوست چین کو بھی اعتماد میں لیا ہوا ہے۔
چین کے قومی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بلکہ اس کے فروغ کے لیے جو حکمت عملی پاکستان نے وضع کی ہے، چین اس کو سراہے بغیر نہیں رہا۔
چین کو تجارتی مقاصد کے لیے محفوظ گزر گاہیں اور گہرے سمندروں تک رسائی چاہیے، جو پاکستان دے چکا ہے۔
چین کی دوسری بڑی پریشانی چین کے مسلم علاقوں میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو روکے رکھنا ہے، جس کی پاکستان نے یقین دہانی کرواتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
چین اس نکتے کو بخوبی سمجھتے ہوئے پاکستان کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کے ساتھ کھڑا ہے۔
امریکہ اور چین جہاں دنیا میں ہر جگہ متحارب نظر آتے ہیں، پاکستان میں دونوں ایک دوسرے سے متفق ہیں۔
اس باہمی اتفاق کی وجہ دونوں بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ ہے، جسے پاکستان نے بیک وقت محفوظ بنانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
بین الاقوامی طاقتوں کا پاکستان پر بھروسہ ہی بھارت کی اصل پریشانی اور پیٹ کا مروڑ ہے۔
ہندوستان کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس کا توڑ کیسے نکالا جائے، جبکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مداخلت اور دہشت گردی کے ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرنے جا رہا ہے۔
بلوچستان کے علاوہ خیبر پختونخوا، گلگت - بلتستان، سندھ اور پنجاب میں بھی را کی مداخلت، فنڈنگز اور دہشت گرد کارروائیوں کی تفصیلات بھی بین الاقوامی فورمز پر جمع کی جا رہی ہیں۔
بھارت نے اسی حواس باختگی میں خود دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی، جو اب کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
بھارتی میڈیا، تجزیہ کار، مبصرین اور خفیہ ادارے اس کارروائی میں اندرونی معاونت کا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں۔
یا تو ہندوستان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے ریاستی اور سیکیورٹی ادارے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ جن میں گھسنا اور حسبِ منشا استعمال کرنا اب بچوں کا کھیل بن چکا ہے۔
اگر بقول بھارت کے مستند آوازوں کے ایسا ہی ہوا ہے، تو تب ہندوستان عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے جسے اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ واقعہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ ہندوستان میں دیگر مذاہب اور اقلیتیں اپنی بنیادی انسانی اور آئینی حقوق سے محروم ہیں، جو اس نوع کے واقعات پر منتج ہو رہے ہیں۔
حالیہ حملے میں غیر ملکی سیاحوں، بھارتی فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کی ہلاکت کوئی معمولی بات نہیں ہے، اور اتنی بڑی اور کامیاب کارروائی ہندوستانی سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
بھارت اس واقعے کو لے کر جہاں بین الاقوامی سطح پر بین بجانے کی ناکام کوشش کرے گا، وہاں پاکستان کی مشرقی سرحد پر دباؤ بڑھا کر مغربی سرحد اپنے گماشتوں کی دراندازی کے لیے سہل بنانے کی کوشش کرے گا۔
واضح رہے کہ افغانستان سے را کے کارندے دراندازی کی کوششوں میں مسلسل لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو رہے ہیں۔
بھارت کے پاکستان مخالف بیانات اور ردِ عمل پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ جلیل عباس نے کہا ہے کہ بھارت ہمیشہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگانا شروع کر دیتا ہے۔
سابق وزیر خارجہ جلیل عباس نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے واقعے کے بعد سے بھارتی میڈیا نے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی ہے۔
جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بھارت بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزامات لگانا شروع کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی ایجنسیاں مختلف دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں، بھارت تو پاکستان میں بھی دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث پایا گیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی فالس فلیگ آپریشن کے مقصد پر، جو تحریکِ آزادی کشمیر کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، سماجی رہنما اور مقبوضہ کشمیر میں قید کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ ہم بھارت کے اس فالس فلیگ آپریشن کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فالس فلیگ آپریشن کا مقصد کشمیر کی تحریکِ آزادی کو بدنام کرنا ہے۔
مشعال ملک نے کہا کہ ہم بھارتی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔
مشعال ملک کا کہنا تھا کہ پہلگام فائرنگ بالکل سکھوں کے چیٹی سنگھ پورہ قتلِ عام جیسا واقعہ ہے، بھارت نے سال 2000 میں 35 سکھوں کو قتل کر کے کشمیریوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے صدر کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر 35 سکھوں کو قتل کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کو گودی میڈیا کی جھوٹی خبروں کا شکار نہیں بننا چاہیے۔
واپس کریں