
تاریخ جغرافیہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ بڑی بڑی ایمپائرز قائم ہو جاتی ہیں مگر وہ اندر سے احساس عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔ اپنے اندر کو محفوظ کرنے کیلئے ریاست اور خلق خدا کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط کرنے کے بجائے وہ ہمسایوں پر چڑھ دوڑتی ہیں اپنے لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے صرف زمینیں جیتنے کو اپنی بقا سمجھتی ہیں۔ 19 ویں صدی ہو بیسویں یا 21ویں سامراجی کبھی چین سے نہیں بیٹھتے اور طفیلی ریاستیں بھی اپنے آپ کو سامراج سے کم نہیں سمجھتیں انکے حکمران بھی خدا کے لہجے میں بات کرنے لگتے ہیں۔
1907 کی گریٹ گیم اب بھی جاری ہے پہلے ایک طرف برٹش ایمپائر تھی دوسری طرف رشین ایمپائر اور نظریں وسطی ایشیا پر۔ اب نیو گریٹ گیم جاری ہے نیا عظیم کھیل۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ نیا کبھی پرانے سے طاقتور نہیں ہوتا نیا پاکستان صرف پاکستان نیا لاہور اور صرف لاہور نیو کراچی اور صرف کراچی کا موازنہ کر لیں۔اب یہ نیا عظیم کھیل امریکہ اور چین کے درمیان ہے اگرچہ دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں مگر سامراجی خواہشات عقل و دانش پر غالب آ جاتی ہیں۔ ہم دوستی اور مروت میں چین کو سامراج کہنے سے گریز کرتے ہیں حالانکہ نیو گریٹ گیم میں دونوں کا سامراج ہونا معروضی ہے۔ بات ممکن ہے دور کی ہو لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی عجلت پسندی کے باعث یہ دور جلد بھی آ سکتا ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اپنے گھر محلے شہر ملک اور دنیا جہاں کی باتیں کرنے کا دن۔ آج آپ چاہیں تو نیو گریٹ گیم پر بات ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا نے سب کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اب سامراجی جنگ علاقوں پر فوجی قبضے کے بجائے اقتصادی غلبے کی ہے۔ گریٹ گیم میں علاقوں پر قبضے کیے جاتے تھے۔ اس سے پہلے جاسوسوں کے ذریعے ان ملکوں کے حالات حکمرانوں کی کمزوریاں معلوم کی جاتی تھیں۔ اس زمانے کے جاسوس بہت مہنگے پڑتے تھے ان کا سفر جہاں گسل طویل اور خطرناک ہوتا تھا۔ اکیلا جاسوس نہیں وہ ایک پورا کنوائے لے کر چلتا تھا اب جس طرح کنوائے میں ایمبولنسیں ڈاکٹر مواصلاتی آلات سے لیس گاڑیاں ضروری ہوتی ہیں ان دنوں گھوڑوں اونٹوں پر اناج پانی اسلحہ ہوتا تھا۔ ان دنوں بنیاد جیو پولیٹکس (علاقائی سیاست) ہوتی تھی اب جیو اکنامکس (علاقائی معیشت) ہے۔
اب جو کچھ ہونے والا ہے اور جلد ہی کیونکہ امریکی صدر بہت بیکل ہیں وہ چار سال میں نصف صدی گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کا ہدف چین ہے اس لیے چین کے ہمسائے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ دوسرا نشانہ ایران ہے یہ بھی ہمارا ہمسایہ ہے۔ ان دنوں جو سیاسی سفارتی کشمکش چل رہی ہے۔ اس میں پوری دنیا کے حکمرانوں کی اہلیت اور صلاحیت کی کڑی آزمائش ہونے والی ہے۔ مغرب میں ان دنوں یہ تجزیے ہو رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی’’ٹیرف عسکریت‘‘ کے مقابلے میں کیا روس چین پاکستان ایران ایک ہو سکتے ہیں۔ کیا ماسکو بیجنگ 'اسلام آباد تہران متحد ہو سکتے ہیں۔ اقتصادی غلبے کی جنگ کو ’’مہذب سامراجیت‘‘ کہا جا سکتا ہے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو تو اب امریکی اتحاد نے نائن الیون کے بہانے بالکل بے بس اور بنجر کر دیا ہے۔ اب مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں میں سے کسی کا بھی کوئی اپنا قابل غور کردار نہیں ہے۔ اب یہاں کوئی شاہ فیصل کوئی ناصر کوئی قذافی کوئی نہرو کوئی سوکارنو کوئی بھٹو کوئی بورقیبا نہیں ہے امریکہ نے اسرائیل کو اس علاقے کا ایس ایچ او بنا دیا ہےاور وہ یہ کردار بخوبی ادا کر رہا ہے کیونکہ اس سے سفارت ذہانت تدبر کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
پہلے سامراج صرف گھوڑوں کیلئے راستہ دیکھتا تھا اب وہ گیس کی پائپ لائنوں بجلی کے رابطوں اور بوسٹروں کیلئے جگہ دیکھتا ہے ’’ایک پٹی ایک سڑک‘‘ سامراج کے مقابلے میں ایک عوامی فلسفے کے طور پر آ رہا ہے۔ آپ پتہ نہیں صورتحال کو کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔پرنٹ تو رو بہ زوال ہے۔ ہفت روزہ رسالے کبھی قوم کو ان تجزیوں کی طرف راغب کرتے تھے لیکن سامراج نے برقی میڈیا کے ذریعے ان سنجیدہ تجزیوں کا راستہ بند کر دیا۔ اب بڑے اچھے کلپ ملتے ہیں لیکن ہم پوری توجہ کم ہی دے پاتے ہیں۔ پرنٹ تو ڈوب رہا ہے لیکن اپنے ساتھ معروضیت، حقیقت نگاری، سنجیدگی سب لے کر ڈوب رہا ہے۔ سامراجی ریاستیں ایسی پھیکی پھیکی دنیا ہی چاہتی ہیں۔
ہماری گزشتہ تجویز کہ پاکستان کی معدنی دولت سے استفادے کیلئے ایک یونیورسٹی صرف علم ارضیات کیلئے ہونی چاہیے، بہت پسند کی گئی ہے۔ اب ایک نشست میں سینئر صحافی سعید خاور کی یہ تجویز مجھے قابل قدر لگی کہ پاکستان میں آبی وسائل اور ان سے استفادہ کرنے والے اتنے زیادہ ہیں ایک یونیورسٹی صرف دریاؤں کیلئے بھی ہونی چاہیے۔ یونیورسٹیوں کا کردار ہمیشہ تحریکی اور تاریخی ہوتا ہے تحریک پاکستان سمیت اکثر تحریکیں یونیورسٹیوں سے چلیں اور پھر بلا خوف تردید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں چلنے والی اکثر تحریکیں یونیورسٹیوں میں ہی دم توڑ گئیں جب سے یونیورسٹیوں میں طالب علم طاقت کو سیاسی پارٹیوں نے اپنے زیر اثر گروہوں میں بانٹا ہے۔ اس وقت سے طالب علموں کی اپنی طاقت جاتی رہی ہے۔
یونیورسٹیوں میں ذہانت ہے، تحقیق ہے، رہبری ہے روشنی ہے۔ وہ معاملات کو صرف جذباتی طور پر قبول نہیں کرتی ہیں۔ اچھی طرح پرکھ کر جانچ پڑتال کر کے علمی تحقیقی اور معروضی بنیادوں پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے صوفیاء کرام علمائے عظام کی شکل میں بھی کتنی یونیورسٹیاں بخشی ہیں۔ بلھے شاہ'، سلطان باہو، میاں محمد بخش، شاہ حسین، رحمان بابا، خواجہ فرید، مست توکلی، شہباز قلندر، شاہ لطیف، سچل سر مست سب درسگاہیں ہیں۔ ان درسگاہوں نے کتنی نسلوں کو ڈگریاں عطا کی ہیں کتنے کروڑوں ذہنوں کو متاثر کیا ہے اسی طرح اراضی دریاؤں اور سمندروں کا گہرا رشتہ ہے اور پاکستان کے پاس یہ سب کچھ ہے۔ یونیورسٹیوں کا فرض ہے کہ وہ معلوم کریں دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو؟
دلوں کی جاننا ضروری ہے دلوں کو جیتنا ضروری ہے دلوں کو جیت کر ہی ہم اجتماعی دانش حاصل کر سکتے ہیں اور حالات کی تبدیلی اجتماعی دانش سے ہی ہو سکتی ہے گریٹ گیم جاری ہے اور اس وقت وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ سامراج کی نظریں پاکستان پر بھی ہیں۔ کیونکہ پائپ لائنیں ہمارے صحراؤں دریاؤں سمندروں سے ہی گزریں گی۔کیا ضروری نہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں، بیوروکریٹ، سیاسی کارکن، جانباز ہمارے دریاؤں کی نفسیات ہمارے صحراؤں کی جبلتوں ہمارے ریگستانوں کی فراخ دلیوں سمندروں کی تہوں میں موجود خزانوں کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوں۔ ان کا ذہنی معیار سامراجی ریاستوں کے ماہرین کے معیارکے برابر ہو۔ ہمیں اندرونی کشا کشیں جلد از جلد ختم کر کے آنے والے زلزلوں، ژالہ باری اور خشک سالیوں کے مقابلے کیلئے متحد ہونا چاہئے۔ پی پی پی مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سب کو آئندہ دس پندرہ سال کا روڈ میپ تیار کر لینا چاہئے۔
واپس کریں