چین-امریکہ تجارتی کشمکش: پاکستان کی معیشت کے لیے مواقع یا خطرات؟

(تحریر: خالد خان )چین اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی جنگ نہ صرف عالمی معیشت کے تانے بانے کو متاثر کر رہی ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک، بالخصوص پاکستان، کے لیے یہ صورت حال معاشی امکانات اور خطرات دونوں کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی دو معیشتیں جب ایک دوسرے کے خلاف اقتصادی اقدامات اٹھاتی ہیں، تو اس کے ارتعاشات دنیا کے ہر کونے میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ درآمدی و برآمدی محصولات میں اضافے، ترسیلات میں رکاوٹ، اور مالیاتی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال عالمی سطح پر تجارتی بہاؤ کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک، جس کی معیشت کا ایک بڑا انحصار برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بیرونی امداد پر ہے، اس جنگ کے براہِ راست اور بالواسطہ اثرات سے بچ نہیں سکتا۔
چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جس کے ساتھ دوطرفہ تجارت 2023 میں 27 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی۔ امریکہ بھی پاکستان کا ایک اہم تجارتی اتحادی ہے، جسے پاکستان کی برآمدات کا تقریباً 16 فیصد حصہ جاتا ہے۔ ایسے میں اگر امریکہ، چین پر پابندیاں سخت کرتا ہے یا تجارتی تعلقات مزید خراب ہوتے ہیں، تو پاکستان کو دونوں اطراف سے دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایک طرف امریکہ کی طرف سے یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنی قربت محدود کرے، جبکہ دوسری طرف چین یہ توقع رکھے گا کہ پاکستان CPEC جیسے سٹریٹجک منصوبوں میں مزید گہرائی لائے۔
تاہم، یہ بحران پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے۔ چینی کمپنیاں، جو امریکی منڈیوں سے نکلنے پر مجبور ہیں، نئی سرمایہ کاری کے مراکز تلاش کر رہی ہیں۔ اگر پاکستان اپنے معاشی ڈھانچے میں استحکام لاتا ہے، پالیسیوں میں شفافیت پیدا کرتا ہے، اور کاروباری ماحول کو سہل بناتا ہے تو وہ چینی سرمایہ کاری کا نیا مرکز بن سکتا ہے۔ چین کی “Belt and Road Initiative” کے تحت CPEC منصوبہ پاکستان میں پہلے ہی 25 بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری لا چکا ہے، جس میں توانائی، انفراسٹرکچر، اور صنعتی زون شامل ہیں۔ اگر ان منصوبوں کی بروقت تکمیل اور مؤثر نگرانی کی جائے، تو پاکستان کی برآمدات اور صنعتی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔
لیکن خطرات بھی کم نہیں۔ عالمی منڈی میں عدم استحکام کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ صرف 2022 اور 2023 کے دوران روپے کی قدر میں 28 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ میں بے یقینی نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کیا۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ جو جون 2023 تک 125 بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا تھا، مزید بڑھنے کے امکانات بھی موجود ہیں اگر عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط سخت کرتے ہیں۔
پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی میں انتہائی مہارت سے توازن قائم کرنا ہوگا۔ اسے نہ صرف چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنا ہوگا، بلکہ خطے کے دیگر ممالک، جیسے بھارت، ایران، اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی اقتصادی روابط مضبوط بنانے ہوں گے تاکہ کسی ایک جانب جھکاؤ کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں پارلیمانی مشاورت کو اہمیت دے، کیونکہ یکطرفہ یا ہنگامی فیصلے وقتی فائدہ تو دے سکتے ہیں مگر طویل المدتی اعتبار سے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت داخلی استحکام، پالیسیوں کا تسلسل، اور اداروں کی خودمختاری ہے۔ عالمی معاشی کشمکش سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی، جس میں معیشت، خارجہ پالیسی اور اندرونی سلامتی کو مربوط طریقے سے چلایا جائے، ازحد ضروری ہے۔ بصورت دیگر، پاکستان نہ صرف معاشی طور پر کمزور ہوتا جائے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھے گا۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان خواب غفلت سے جاگے، عالمی اقتصادی حالات کا ادراک کرے، اور خود کو محض متاثر ہونے والے ملک کے بجائے ایک فعال کھلاڑی کے طور پر منوائے۔ چین اور امریکہ کے درمیان یہ کشمکش طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے، مگر اس کے دوران اگر پاکستان سمجھداری سے فیصلے کرے تو وہ خود کو ایک علاقائی معاشی مرکز کے طور پر پیش کر سکتا ہے—بشرطیکہ حکمت، بصیرت اور قومی مفاد کو ترجیح دی جائے۔
واپس کریں