جنگ اور اسرائیلی پابندیوں میں غزہ کے مکینوں کی زندہ رہنے کی کوشش

وسطی غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم احمد الکفارنہ اپنے خیمے میں بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ اب وہ اپنے گھرانے کا پیٹ کیسے پالیں گے۔ علاقے میں امداد کی فراہمی کے راستے بند ہونے سے زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے اور جہاں لوگوں کو حسب ضرورت آٹا بھی دستیاب نہیں۔
احمد جسمانی طور پر معذور ہیں جو شمالی غزہ سے کے علاقے بیت حنون سے نقل مکانی کر کے غزہ شہر میں آئے ہیں۔ انہوں نے یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو روزانہ بمشکل ایک وقت کا کھانا ہی مہیا کر پاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں جلد سلا دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بچوں کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
وہ جس جگہ رہتے ہیں وہاں پینے کے پانی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں۔ کبھی کبھار ٹرک پانی لے کر آتے ہیں تو انہیں صاف پانی میسر آتا ہے۔ جہاں تک ادویات اور صحت و صفائی کے سامان کا تعلق ہے تو یہاں ان چیزوں کا تصور بھی محال ہے۔
شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیہ سے غزہ شہر کے وسط میں نقل مکانی کرنے والے سمیر ابو عمشہ جلد کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں کوئی امداد نہیں پہنچ رہی۔ لوگ صرف چاول پر گزارا کر رہے ہیں جو کافی نہیں۔ متواتر چاول کھانے سے انہیں اسہال کی شکایت ہو گئی تھی۔ لیکن وہ زندہ ہونے پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر پھیلتی بھوک
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے گزشتہ روز صحافیوں کو بتایا تھا کہ غزہ میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے کوئی مدد نہیں پہنچی اور علاقہ تیزی سے ہولناک حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ غزہ گویا قتل گاہ بن چکا ہے جہاں رہنے والے لوگ موت کے لامختتم چکر میں پھنس گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے سربراہوں نے ایک مشترکہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کی 21 لاکھ آبادی کو ایک مرتبہ پھر بمباری اور بھوک کا سامنا ہے جبکہ خوراک، ادویات، ایندھن، پناہ کا سامان اور بڑی مقدار میں دیگر امدادی اشیا علاقے کی سرحدوں کے باہر پڑی ہیں۔ ایسی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں کہ غزہ میں حسب ضرورت خوراک موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔
واپس کریں