دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امریکہ نے بلوچ لبریشن آرمی کو کب اور کیوں دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا؟
No image (رپورٹ ،خالد خان )امریکہ نے 2 جولائی 2019 کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، اس تنظیم نے پاکستان میں متعدد دہشت گردانہ حملے کیے، جن میں اگست 2018 میں چینی انجینئرز پر حملہ، نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ، اور مئی 2019 میں گوادر کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ شامل ہیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بی ایل اے کے تمام مالی اثاثے منجمد کر دیے گئے، اور امریکی شہریوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس تنظیم سے کسی بھی قسم کا تعلق نہ رکھیں۔
پاکستان نے اس امریکی فیصلے کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ امریکہ ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کرے جو بی ایل اے کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے مطابق، اس وقت تک ملک میں ستر دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کی جا چکی تھی، جن میں پندرہ گروہ بلوچستان میں ریاست کے خلاف مسلح کارروائیاں کر رہے تھے۔ ان میں سب سے نمایاں بی ایل اے تھی، جس پر پاکستان نے 2006 میں پابندی لگا دی تھی۔
بلوچ لبریشن آرمی کا قیام 1970 کی دہائی میں عمل میں لایا گیا تھا جسے میر بالاچ مری نے از سرع نو منظم کیا تھا، جو 2008 میں افغانستان میں نیٹو کے فضائی حملے میں مارا گیا۔ تنظیم ابتدا میں ایران سے مالی اور عسکری مدد حاصل کرتی رہی، لیکن بعد میں اس نے بھارت سے روابط قائم کر لیے اور اس کی سرپرستی میں کام کرنے لگی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی جانب سے اسے مالی و تربیتی مدد فراہم کیے جانے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ آج بھی تنظیم کی اعلیٰ قیادت بیرون ملک مقیم ہے اور اس کے زیادہ تر آپریشنز سرحد پار موجود عسکریت پسند نیٹ ورکس کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔
بی ایل اے نے گزشتہ تین دہائیوں میں بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے، ہزارہ شیعہ برادری کو نشانہ بنا کر فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی، اور قومی تنصیبات پر حملے کیے۔ تنظیم کی کارروائیوں میں گیس پائپ لائنوں، ریلوے ٹریکس، اور حکومتی عمارتوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات شامل ہیں۔ بی ایل اے نے اپنے مقاصد کے لیے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا، تاکہ بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دی جا سکے اور پاکستان میں فرقہ واریت کو مزید پیچیدہ بنایا جا سکے۔
امریکی فیصلے کے کئی عالمی اثرات مرتب ہوئے۔ چین، جو سی پیک منصوبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا تھا، بی ایل اے کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا تھا اور اس فیصلے کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ بھارت، جو بلوچستان میں مداخلت کے الزامات کی زد میں تھا، اس فیصلے کے بعد دباؤ میں آ گیا۔ بھارت کی حکومت پر عالمی سطح پر سوالات اٹھائے جانے لگے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کیوں کر رہا ہے۔
ایران نے اس فیصلے کے حوالے سے خاموشی اختیار کی، حالانکہ اس پر بعض بی ایل اے دھڑوں کو پس پردہ مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو، اور وہ بی ایل اے جیسے گروہوں کو متحرک رکھ کر خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
افغانستان کی صورتحال بھی اس فیصلے سے متاثر ہوئی۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران بی ایل اے کی سرگرمیاں مزید تیز ہو گئیں، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کچھ عناصر اس امن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ نے اس وقت یہ الزام لگایا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران ہے، اور بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دینا اسی پالیسی کا تسلسل تھا۔
روس نے بھی اس فیصلے کے بعد محتاط رویہ اختیار کیا۔ روس وسطی ایشیا میں امریکی پالیسیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا اور بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد اس کے ممکنہ اثرات کا تجزیہ کر رہا تھا۔ روسی حکومت خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے مفادات کے مطابق رکھنا چاہتی تھی اور بی ایل اے جیسے گروہوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بھی محتاط انداز میں چلا رہی تھی۔
بی ایل اے اب بھی مختلف ذرائع سے فنڈنگ حاصل کر رہی ہے، جن میں سمگلنگ، بیرون ملک مقیم حمایتی نیٹ ورکس اور بعض خفیہ ادارے شامل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا، لیکن اس کے خلاف مزید عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس کا نیٹ ورک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا۔ تنظیم کی قیادت اب بھی بیرون ملک محفوظ مقامات پر مقیم ہے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات بھی اس فیصلے کے بعد متاثر ہوئے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو کمزور کرنے کے لیے اس موقع سے مزید بہتر انداز میں فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا، لیکن سیاسی قیادت کی عدم توجہ کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو بی ایل اے کے خلاف مزید اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اس تنظیم کی کارروائیوں کو مکمل طور پر روکا جا سکے۔
بی ایل اے کے موجودہ قیادت پر پاکستان میں دہشت گردی کے درجنوں مقدمات درج ہیں جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ امریکہ کے اس فیصلے کے بعد ان کے دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہونے میں بھی مشکلات پیدا ہوئیں۔ اگر امریکہ مزید عملی اقدامات کرتا تو بی ایل اے کی سفارتی اور مالی آزادی مزید محدود ہو سکتی تھی، اور تنظیم کو خطے میں مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، مگر امریکہ نے بی ایل اے کو محض دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر اکتفا کیا۔
یہ فیصلہ سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی، لیکن عملی اقدامات کی کمی کے باعث تنظیم کی سرگرمیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں۔ امریکہ، چین، اور پاکستان کے درمیان مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بی ایل اے کے نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر پاکستان اور عالمی برادری نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو یہ تنظیم مستقبل میں بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کوشش کری گی۔
واپس کریں