دنیا 1930 کی دہائی کی طرح کے خطرناک عہد میں داخل ہوگئی ہے۔

(تحریر عمار علی جان) سنگاپور کے وزیراعظم لارنس وونگ نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کے ٹیرف کے بعد دنیا 1930 کی دہائی کی طرح کے خطرناک عہد میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ دور تھا جب یورپی کالونیل سسٹم کا بحران شدید ہورہا تھا جس کا اظہار یورپ میں فاشزم اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا۔ آج کی صورتحال پر میں 8 پوائنٹ پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے دوستوں کو موجودہ بحران سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
1۔ ٹرمپ نے ایسا کیوں کیا؟ 1973 کے معاشی بحران کے بعد کئی بڑی کمپنیوں نے اپنی فیکٹریاں امریکہ سے نکالنا شروع کردی تھیں۔ اس رجحان میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں شدت آئی جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد "Washington Consensus" کو دنیا پر لاگو کیا گیا جس میں تیسری دنیا کے ممالک کو زبردستی فری مارکیٹ اکانومی کی طرف دھکیلا گیا۔ لیکن اس رجحان کا امریکہ کو آہستہ آہستہ نقصان شروع ہوگیا کیونکہ امریکہ میں انڈسٹری اور اچھی نوکریوں کا فقدان بڑھ گیا اور بینکوں کی طاقت بڑھتی گئی۔ 2008 کے مالی بحران اور 2019 میں کورونا کے بعد امریکہ کی اشرافیہ نے اربوں ڈالر بنائے جبکہ عام عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہوگئے۔ اس عوامی غصے اور بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر ٹرمپ نے Make America Great Again کا نعرہ لگایا جس سے اس کی مراد امریکہ کو ایک بار پھر ایک عالمی انڈسٹریل پاور بنانا تھا۔
2۔ ٹیرف لگا کر امریکہ نے پچھلے پچاس سال اپنا بنایا ہوا "فری مارکیٹ" کا بیانیہ دفن کردیا ہے۔ اس بیانئے کو بنانے کے لئے تیسری دنیا کے ممالک پر پابندیاں لگائی گئیں اور حکومتی تختے بھی الٹائے گئے۔ اس کی سب سے مشہور مثال 1973 میں لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں ملتی ہے جہاں پر سی آئی اے ایک سوشلسٹ حکومت کا تختہ الٹا کر فوجی General Pinochet کی آمریت قائم کروائی۔ اسی طرح آئی ایم ایف اور WTO نے تمام ملکوں کو دھمکی آمیز نصیحتیں کیں کہ وہ اپنی تجارت کو عالمی منڈی کے لئے کھولیں۔ لیکن آج جب امریکہ کی معیشت کمزور ہورہی ہے تو اس نے ٹیرف لگا کر Free trade کے اپنے ہی مقدس اصولوں کو دفن کردیا ہے۔
3۔ یہ ٹیرف اپنا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہوجائیں گے۔ اس پر ڈاکٹر تیمور رحمان نے بہترین وڈیو بنائی ہے جس کا لنک کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت پر بینکوں، آئی ٹی کی چند کمپنیاں (جو زیادہ تر صنعت بیرون ملک لگاتے ہیں) اور war industry کی اجارہ داری قائم ہے۔ ٹرمپ ان کو ہاتھ لگانے کے بجائے ان گروہوں کو مزید مراعات دے رہا یے جبکہ بیرونی اشیا پر ٹیکس لگا رہا ہے۔ اس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا اور امریکی معیشیت کے اندر اجارہ داری رکھنے والا گروہ، جو 1973 سے ہی امریکہ میں بڑی صنعت لگانے کی نفی کرتا ہے، پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگا۔
4۔ ان تمام پالیسیوں کا سب سے اہم ٹارگٹ چین ہے۔ چینی معیشت نے 1980 کی دہائی سے لے کر اب تک حیرت انگیز طور پر ترقی کرتے ہوئے 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے بھی نکالا اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی بن گئی ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ چین free trade کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ اس کا دلیل یہ یے کہ چین اپنی انڈسٹری (خصوصی طور پر سٹیل اور auto-industry) کو بھاری مراعات دیتا ہے، بیرونی کمپنیوں پر پابندی لگاتا ہے کہ وہ مقامی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کاروبار کریں (ان۔کمپنیوں کے اندر ریاست اور کمیونسٹ پارٹی کے نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں) اور data جیسے سیکٹر میں کسی بھی بیرونی کمپنی کو داخل ہونے کی جازت نہیں دیتا۔ یہ الزامات ایک لحاظ سے درست ہیں۔ Isabella Weber نے اپنی کتاب How China Escaped Shock Therapy میں لکھا ہے کہ 1980 کہ دہائی میں چین کی کیمونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ عالمی منڈی کے ساتھ تجارت ناگزیر ہوچکی ہے۔ لیکن شدید اندرونی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس تجارت اور صنعتی ترقی کو کیمونسٹ پارٹی اور ریاست کے تابع رکھا جائے گا تاکہ معیشت کی پلاننگ ریاستی کنٹرول میں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمائے کی آمد نے 1990 کی دہائی میں روس میں کروڑوں لوگوں کو غربت میں دھکیل دیا جبکہ چین میں اسی پالیسی نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکال دیا۔ باقی امریکہ، جس نے 80 سے زائد حکومتوں کے تختے الٹے ہیں، کے منہ سے کسی دوسرے ملک پر "غیر منصفانہ مداخلت" کا الزام لگانا ایک بڑا مذاق ہی لگتا ہے۔
5۔ چین نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے امریکہ پر 34 فیصد ٹیکس لگا دئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان نیا معاہدہ طے پاجائے۔ لیکن چین کی کیمونسٹ پارٹی امریکی جارحیت کے لئے تیار تھی اور اس نے کچھ عرصے سے اپنی سرمایہ کاری اور تجارت کا رخ تیسری دنیا اور یورپ کی طرف موڑنا شروع کردیا تھا۔ ماضی میں بھی ٹیرف جیسی پالیسیوں نے دنیا بھر کے ممالک کو اپنی سمت بدلنے پر مجبور کیا تھا۔ اور جس طرح امریکہ کا معاشی اور اخلاقی زوال بڑھ رہا یے، اسی طرح دنیا بھر کے ممالک میں متبادل کی تلاش بڑھتی جائے گی۔
6۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا یے جب امریکہ کے اندر آمرانہ رویے بڑھ رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یونیورسٹی میں فلسطین کے حمایتیوں کی گرفتاریاں اور اغوا کے واقعات ہیں۔ محمود خلیل نامی ایک طالب علم کو گرین کارڈ حاصل کرنے کے باوجود deport کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ اس جرم میں امریکی لبرل برابر کے شریک ہیں۔ بائڈن کے دور ہی میں نہ صرف فلسطین کی نسل کشی کی حمایت کی گئی بلکہ یونیورسٹیوں کے اندر طلبا پر گھٹیا الزامات بھی لگا کر انہیں ہراساں کیا گیا۔ اسی طرح لوگ بھول جاتے ہیں کہ چین پر ٹیرف پہلے بائڈن نے لگائے تھے اور چین کے محاصرے کی Pivot to Asia پالیسی کے خالق صدر اوبامہ تھے جبکہ روس یوکرائن جنگ کو بھڑکانے میں بھی یہ سب شریک تھے۔ ٹرمپ محض اس عمل کو تیز کررہا یے۔
7۔ 1930 کی دہائی میں تجارتی جنگ نے بحران مزید گہرا کردیا تھا اور دنیا جنگ کی طرف چلی گئی۔ آج وہ خطرات پھر موجود ہیں۔ ایک زوال پذیر سامراج کے پاس صرف ایک سیکٹر میں سب پر برتری حاصل ہے اور وہ سیکٹر جنگ ہے۔ امریکہ ان معاملات کو بذریعہ جنگ حل کرنے کی کوشش کرے گا جس کی وجہ سے وہ اپنی عسکری توانائی یورپ سے ہٹاکر ایشیا پر مرکوز کرے گا۔ ایران کو دھمکی بھی اسی تناظر میں دیکھیں جاسکتی ہے۔ دوسری جانب یورپ بھی بیک وقت فاشزم اور war industry کے تابع ہورہا ہے۔ جنگ کا ایک اہم مقصد اس تاریخی رجحان کو ختم کرنا ہوگا جس میں 300 سال کے مغربی تسلط کے بعد دنیا ایک multipolar حقیقت کی طرف بڑھ رہی یے۔
8۔ مغربی جنگوں میں ڈالر کمانے والی اشرافیہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے۔ ان کے عزائم کو شکست دینا انقلابیوں کی ایک اہم ذمہ داری یے۔ ایک طرف ضروری ہوگا کہ سوشلسٹ تحریک کو مزید منظم کیا جائے کیونکہ سرمایہ داری اب بھوک، جنگ، اور ماحولیاتی تباہی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپ میں جنگ مخالف تحریک کو تیسری دنیا کے اندر سوشلسٹ اور جنگ مخالف تحریک سے جوڑنا بھی ایک اہم ہدف ہوگا تاکہ مغربی عوام اپنی حکومتوں کے جنگی پروپیگنڈہ کے زیراثر نہ آئیں۔ تیسرا اپنے خطے کے اندر اتحاد پیدا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اغیار کی جنگوں میں ایک بار پھر ہمیں مت دھکیلا جائے۔
تاریخ میں ایک بار پھر مقابلہ امن کے متوالوں اور لاشوں کے سوداگروں کے درمیان ہوگا۔ 1940 میں بھی فاشسٹ قوتوں کو سوشلشٹوں نے ہی شکست دی تھی۔ آج بھی یہ تاریخی ذمہ داری انقلابیوں کو ہی پوری کرنی ہوگی۔
واپس کریں