سردار میر محراب خان کی شہادت: بلوچ مزاحمت کی ایک لازوال داستان

(تحریر۔خالد خان )بلوچ تاریخ میں سردار میر محراب خان کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ 5 نومبر 1839 کو جب انگریز کی طاقتور فوج نے قلات پر یلغار کی تو سردار محراب خان اپنی قوم کے وقار کے لیے میدان میں اُترے۔ انگریز جنرل ولشائر کی قیادت میں جارح فوج کو دیگر بلوچ سرداروں کی حمایت حاصل تھی۔ سردار میر محراب خان نے مسلح انگریز فوج کا مردانہ وار مقابلہ کرکے جرأت اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔
وہ صرف ایک سردار نہیں تھے، وہ بلوچ غیرت اور مزاحمت کا جیتا جاگتا ثبوت تھے۔ انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے باوجود، وہ تاریخ میں امر ہوگئے کہ انہوں نے سر جھکانے کی بجائے سر کٹوانا منتخب کیا۔ ان کی شجاعت اور شہادت نہ صرف ایک قوم کی غیرت کی داستان ہے بلکہ استعمار کے خلاف بغاوت کی علامت بھی ہے۔
انگریزوں نے پورے علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیا، لیکن سردار میر محراب خان کی قربانی نے بلوچ عوام کو یہ سبق دیا کہ غلامی کے خلاف اُٹھنا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے۔ ان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اپنے مقامی گماشتہ سرداروں کے ذریعے بلوچستان کو اپنے زیرِ تسلط کر لیا، لیکن سردار میر محراب خان کی قربانی نے حریت کی ایک لازوال داستان تخلیق کی۔
آج جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمارے سامنے ان سرداروں کے نام آتے ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے قوم کو بیچ دیا تھا، مگر سردار میر محراب خان کا کردار ہمیشہ بلوچوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ سردار جس نے اپنی قوم کی خاطر جان دی، اس کا نام کبھی فراموش نہیں ہو سکتا۔
ان کی شہادت کی یہ داستان ہمیں یاد دلاتی ہے کہ غلامی کے خلاف مزاحمت اور قوم کی عزت کے لیے جان دینا سب سے بڑی قربانی ہے۔
انگریز کے ریکارڈ میں سب کچھ درج ہے۔ سردار میر محراب خان کی حریت اور بکاؤ سرداروں کی قیمتیں بھی۔ تاریخ کے غلام گردشوں میں خائن بلوچ سردار برہنہ کھڑے ہیں جو ایک تماشے سے کم نہیں، جبکہ حریت پسند انہی غلام گردشوں سے اوپر کھلی فضاؤں میں امر ہو چکے ہیں۔ آئیے اس اختتامی پیراگراف میں انگریز کے ہاتھوں مال مویشیوں کی طرح بکے ہوئے ان بلوچ سرداروں کی قیمتوں سے آپ کو آگاہ کرتے ہیں:
سردار رئیسانی 400 روپے ماہانہ، سردار شاہوانی 300 روپے ماہانہ، سردار بنگلزئی 300 روپے ماہانہ، سردار محمد شہی 300 روپے ماہانہ، سردار لہری 300 روپے ماہانہ، سردار شاہوانی 300 روپے ماہانہ، نواب مری 818 روپے، نواب بگٹی 800 روپے، نواب جوگیزئی 400 روپے، سردار سنجرانی 350 روپے، ارباب کاسی 350 روپے، سردار زگر مینگل 300 روپے، سردار پانیزئی 240 روپے، سردار ناصر 218 روپے، سردار کھیتران 200 روپے، سردار باروزئی 168 روپے، سردار لونی 125 روپے اور سردار موسیٰ 60 روپے۔
ان غداروں کی قومی اور منصبی تشخص کچھ یوں تھی: والیانِ ریاست 4، نواب اور سردار 74، ملک اور معتبر 101، جرگہ کے اراکین 87، ذاتی خدمات ادا کرنے والے 2995 تھے۔ ان والیان، نوابین، سرداروں اور ملکان میں 117 بلوچ اور 61 پشتون تھے، جبکہ ذاتی خدمات والے 914 بلوچ اور 2168 پشتون تھے۔
انہی لوگوں کی اولادیں آج بھی بلوچستان پر باری باری حکمرانی کرتی رہتی ہیں اور آج بھی یہی لوگ قیام پاکستان سے لے کر تا دمِ تحریر بیرونی آقاؤں کے زر خرید غلام ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے انگریز ان کی خرید و فروخت کرتے تھے، جبکہ آزادی کے بعد یہ کھلے عام عالمی منڈی میں ہر کسی کو دستیاب ہیں۔ انگریز سرکار نے ان کو ذمہ داری دی ہوئی تھی کہ بلوچستان کبھی ترقی نہ کر پائے، قومی عدم اتفاق اور قبائلی جھگڑے تسلسل کے ساتھ جاری رہیں اور امن کبھی بھی قائم نہ ہو۔ انگریز کے حکمِ اوّل پر روزِ اوّل سے ان سرداروں نے جو عمل شروع کیا ہوا ہے، وہ ہنوز جاری ہے۔ اور تب تک جاری رہے گا جب تک بلوچ قوم کسی نئے سردار میر محراب خان کی ولولہ انگیز قیادت میں ان خائنوں کے خلاف اُٹھتی نہیں۔
واپس کریں