دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی انتہا پسندی
فرحان ابنِ امان
فرحان ابنِ امان
جب انتہا پسندی کے دروازے کھل جاتے ہیں تو علم، عقل، برداشت، شعور اور اعتدال کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔پاکستان روز اول سے انتہا پسندی جیسے گھناؤنے عمل کا سامنا کرتا آ رہا ہے جس سے ہمارے وطنِ عزیز کو جانی، معاشی اور معاشرتی نقصان چکانا پڑا ہے۔
جب انسان تنگ نظری کا شکار ہوتا ہے تو وہ علم، شعور، برداشت، اعتدال یعنی درمیانہ راستہ چھوڑ کر شدت اور اندھی پرستش کا شکار ہو جاتا ہے اور وہیں سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور انتہا پسندی کبھی بھی سماج و انسان دوست نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کے اندر جو انتہا پسندی موضوع بحث ہوتی ہے وہ ہے صرف مذہبی انتہا پسندی یقیناً مذہبی انتہا پسندی قابل مذمت اور غلیظ ترین عمل ہے۔ لیکن ہماری روشن خیالی اور دانشمندی یہاں تک نہیں رکنی چاہیے کیوں کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ لسانی انتہا پسندی، قوم پرست انتہا پسندی صوبائی انتہا پسندی اور سیاسی انتہا پسندی بھی عروج پر ہے۔
راقم جس موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہے وہ ہے سیاسی انتہا پسندی کیوں کے پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے۔
اس ناچیز کے مشاہدے کے مطابق سیاست تین طرح کی ہوتی ہے۔ ایک نظریات کی بنیاد پر سیاست دوسرا زمینی حقائق پر سیاست اور تیسرا تعصب کی بنیاد پر سیاست۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تعصب کی سیاست کا رجحان عروج پر ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجوہات پاکستان کے نظامِ سیاست میں نظریاتی، اصولی سیاست اور سیاسی شعور کا فقدان ہے۔ اور ایک اور بڑی وجہ ہمارے سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے فالورز کو سیاسی شعور کے بجائے انتہا پسندی کا راستہ دکھایا ہے۔ سیاستدان اپنے کارکنوں تک شعور ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر بات کی جائے ہمارے سیاستدانوں کی تو ہمارے سیاستدان بذات خود اتنے نظریاتی ہیں کے جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو ان کو ملکی معیشت، قومی سلامتی و استحکام اور ملکی دفاع کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ وہی لوگ اگر اپوزیشن میں بیٹھ جائیں تو ان کو آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی جمہوریت اور پارلیمان کا وقار یاد آ جاتا ہے۔
ہمارے نظامِ سیاست میں کرشماتی شخصیات نظریاتی شخصیات پر حاوی ہیں اس لیے وہ کرشماتی شخصیات اگر انتہا پسندی کو شعور کا نام دیتے ہیں تو ان کے کارکن با آسانی مینیوپلیٹ ہو جاتے ہیں۔
ہماری عوام کا رجحان بھی نفرت و تفریق والی سیاست میں ہے ہماری عوام کے مطابق سب سے سچا دلیر ایماندار لیڈر وہ ہے جو سب سے زیادہ سب پر تنقید کرنے والا ہو۔ جو جتنی بھتر تنقید کرنے والا ہوگا وہی سب سے بڑا لیڈر کہلائے گا۔ جو گالم گلوچ، الزام تراشی اپنے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے اور ان کی نجی زندگی کا مذاق اڑانے میں مہارت رکھتا ہو وہی سب سے بڑا مقبول سیاستدان تصور کیا جاتا ہے۔
سیاسی انتہا پسندی کو کبھی بھی شعور کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
شعور یہ نہیں کہ ہر حکومتی اقدامات، آئین سازی اور قانون سازی کو کالا قانون اور جنگل کے قانون کا نام دے کر مخالفت کی جائے اور حزب اختلاف کے ہر اختلاف کی حمایت کی جائے۔ یا ہر حکومتی اقدام کی حمایت اور حزب اختلاف کی مخالفت کی جائے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ ہمارے ملک میں یہ سیاسی رواج ہے کہ اکثر حکومتی پالیسیوں کی مخالفت اور حزب اختلاف کی حمایت یا حکومتی پالیسیوں کی حمایت اور حزب اختلاف کے موقف کی مخالفت فقط سیاسی تعصب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
سیاست میں اختلاف رائے اور اتفاق رائے ہر سیاسی انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ کیوں کہ سیاست اصولوں کا نام ہے اور وہ اصول زد انا تعصب اور نفرت پر کبھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ راقم کے نزدیک زد انا تعصب اور نفرت کے بنیادوں پر اصولوں پر سمجھوتا کرنا سیاسی کفر کے مترادف ہوتا ہے۔ شعور اپنے سیاسی مخالفین سے نفرت کا نام نہیں اپنے مخالف سے بات نا کرنا شعور نہیں ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نا کرنا شعور نہیں۔ بلکہ اپنے اصولوں اور نظریات پر سمجھوتا نا کرنا اصل شعور ہے۔ اور ان اصولوں اور نظریات کا محور ہمیشہ ملک و ملت کی خوشحالی ہونی چاہیے عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے۔
ہماری عوام کو بلخصوص یوتھ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست اصولوں کا نام ہے اور انہیں اصولوں پر سیاست کرنی چاہیے۔ کسی کی حمایت اندھی تقلید اور پرستش کے بجائے حقائق اور اصولی موقف پر کی جائے۔ اگر کسی کی مخالفت کرنی ہے تو زد انا تعصب اور نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر کرنی چاہیے۔ سیاسی ذہنوں کو معتدل ہونا چاہیے اور سیاسی کارکنوں کو سیاسی انتہا پسندی سے نکل کر شعور کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔
واپس کریں