دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نئے پاکستان میں خوش آمدید۔نجم سیٹھی
No image اب ہم اپنے سیاسی ارتقا کے ایک اور غیر مرحلے میں داخل ہوچکے، جسے عدلیہ زدہ سیاست کہا جاسکتا ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب عمران خان کی معمول کے مطابق آئین اور قانون کی پامالی کو 2021 ء کے آخری ایام میں اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ رہی۔ عدلیہ نے فوراً ہی بندوق کی طاقت کو تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلیک میلنگ کی لٹکتی ہوئی تلوار بھی سر پر تھی (جیسا کہ سابق چیئرمین نیب کا کیس تھا)۔ تو سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر معمولی طریقے سے عمران خان کے پر کترنے کے لیے قینچیاں تیار کر لیں جب وہ اسٹبلشمنٹ پر جھپٹنے کے لیے تیار تھے۔

اس پیش رفت نے حزب اختلاف کو بھی عمران خان کے سیاسی فیصلوں (جیسا کہ لانگ مارچ وغیرہ) کو چیلنج کرنے کا حوصلہ دے دیا۔ اس پر عمران خان نے مجبور ہو کر ججوں سے درخواست کرنا شروع کردی کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ کر اس کا ساتھ دیں۔ اب ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں طرفین ججوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ سیاسی طرف داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو آئین اور قانون کی بجائے ”زمینی حقائق“ کی بنیاد پر نمٹائیں۔ تحریک انصاف کے پچیس منحرفین کے ووٹوں کی منسوخی ”اخلاقیات“ کے نام پر غیر آئینی مداخلت کی ایک اور نمایاں مثال ہے۔ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر برقرار رکھنے اور تحریک انصاف کو سترہ جولائی تک اپنے غیر حاضر اراکین کو اکٹھا کرنے کا وقت دیتے ہوئے ججوں نے آئین اور قانون کی بجائے سمجھوتا کرنے کی ایک اور مثال قائم کردی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ججوں نے حمزہ شہباز، عمران خان اور پرویز الہی کو عدالت سے باہر مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنے کا حکم دیا ہے۔

ان تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان قائم ہوتے ہوئے تال میل پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ آنے والے دنوں میں یہ تعلق مزید توانا ہوتا دکھائی دے گا۔ سولین حکمرانوں کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا درد سر مول لینے کی بجائے مستقبل کے جمہوری بندوبست کی ہائبرڈ نوعیت کا یہ کسی جھنجھٹ سے پاک اقدام ہے۔ پاکستان میں طبقے اور ریاست کی روایتی سماجی ساخت میں عدلیہ کو ایگزیکٹو کی باندی سمجھا جاتا تھا۔ اب ایگزیکٹو اتھارٹی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ اس لیے عدلیہ نے با اختیار ہاتھ کی انگلی کا اشارہ بھانپنے میں مطلق دیر نہیں لگائی۔ اب اگر سولین حکمران حکم کی تعمیل میں تامل کا مظاہرہ کریں تو مارشل لا کی دھمکی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اب عدلیہ ہی اسٹبلشمنٹ کی ایما پر ان کے فیصلے منسوخ کرنے دھمکی دے کر انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی۔

تو نئے پاکستان میں خوش آمدید! اب اسٹبلشمنٹ کی اصطلاح ماضی کی طرح فوج کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ اب فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ اس ”ڈیپ“ اسٹیٹ اور ”کھلے“ معاشرے میں فعال دکھائی دے گا جہاں ججوں کی براہ راست معاونت کے ساتھ جنرل حکومت کریں گے۔

نجم سیٹھی کے کالم’’جج اور جنرل‘‘ سے اقتباس ۔ بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز
واپس کریں