دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا بھارتی کشمیر میں جمہوریت کی واپسی معنی رکھتی ہے؟ ایس اے شہزاد
No image انتخابات کا اختتام ‘ارضی جنت’ میں کامیابی کے ساتھ ہو چکاہے۔ نیشنل کانفرنس (NC) کے عمر عبداللہ، ہندوستان کے سرحدی علاقے جموں و کشمیر (جے اینڈ کے) کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ، حالیہ منعقدہ، قانون ساز اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد وزیر اعلیٰ (سی ایم) بن گئے ہیں۔ اور یہ ایک دہائی بعد ، سپریم کورٹ کے حکم پر، بندوق کے سائے میں ہوا۔
عبداللہ جموں و کشمیر میں ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں، جو اپنے خاندان کی سیاسی میراث کی تیسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ بطور وزیر اعلیٰ ان کا دوسرا دور ہوگا اور اس خطے میں ان کی پارٹی کی قیادت میں واپسی سے پہچانا جائے گا، جس خطے کوکئی دہائیوں سے بدامنی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کی پچھلی مدت (2009-2014) نے 2010 میں بڑے پیمانے پر احتجاجوں کا سامنا کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عبداللہ کی قیادت کو کشمیر میں ان کے خاندان کی گہری سیاسی جڑوں کی عینک سے دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر نیشنل کانفرنس (NC)، جس کی بنیاد ان کے دادا، شیخ عبداللہ نے رکھی تھی۔اس الیکشن میں، یہ 42 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری، جس نے 90 سیٹوں والی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس (INC) کے ساتھ اتحاد بنایا (2022 کی حد بندی سے پہلے، J&K میں 87 سیٹوں والی اسمبلی تھی؛ وہاں اب 114 نشستیں ہیں، جن میں سے 24 کشمیر کے اس حصے کے لیے کھلی رہ گئی ہیں جو پڑوسی ملک پاکستان کے زیر انتظام ہے)۔خطے کی تاریخی پیچیدگیوں کے پیش نظر نئی حکومت کو اہم سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔
عبداللہ نے کشمیر کے ووٹروں کی زبردست حمایت کے بارے میں میڈیا کو بتایا، ’’یہ ہمارے اندر بہت زیادہ عاجزی کا احساس پیدا کرتاہے۔انہوں نے کہا کہ "یہ فیصلہ، یہ مینڈیٹ، ہمیں ذمہ داری کا ایک عظیم احساس بھی دلاتاہے۔اور وہ زمہ داری ہے” "امیدوں پر پورا اترنا”۔ آپ کو اس طرح کا مینڈیٹ نہیں ملتا ہے جب تک کہ لوگ نظر آنے والی تبدیلی کی توقع نہ کریں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہمارے لیے ایک بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ نیز، یہ ذمہ داری کئی غیرمتوقع مسائل کو دسمجھ کر پوری کرنی ہوگی۔ ہم ایک مشترکہ یونین ہیں اوریہ پہلا موقع ہو گا کہ یو-ٹی Jammu and Kashmir (union territory))میں منتخب حکومت ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے جب لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) کو ایک منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنا پڑے گا،‘‘ انہوں نے ان چیلنجوں کی عکاسی کرتے ہوئے کہا جن کا ان کی حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا۔
چھ سال حکومت کے بغیر
جموں و کشمیر گزشتہ چھ سالوں سے منتخب حکومت کے بغیر تھا کیونکہ آخری، علاقائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) اور قومی بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے درمیان اتحاد 2018 میں ٹوٹ گیا تھا۔ آخری الیکشن 2014 میں ہوا تھا۔5 اگست، 2019 کو، نئی دہلی میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے ہندوستانی آئین کے70 سا ل سے چلے آرہے شہریت کے قانون، آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے خطے کی محدود خود مختاری کو ختم کر دیا، جس نے جموں و کشمیر کے باشندوں کو خصوصی حقوق فراہم کیے تھے۔ اس نے جموں و کشمیر کا مرتبہ، ایک ریاست سے UT کی سطح تک گھٹا دیا۔ان متنازعہ تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت کے پاس محدود اختیارات ہوں گے، کیونکہ امن و امان، پولیس اور زمین کا اختیار نئی دہلی کے براہ راست کنٹرول میں رہے گا۔
کشمیر میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار اور اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے، RT کو بتایا کہ "خطے میں سیاسی اعتماد کی بحالی ایک مشکل کام ہو گا۔” "نئی حکومت کو سیاسی حق تلفی کے اس احساس کومد نظر رکھنا ہوگا اور تبدیل شدہ آئینی فریم ورک کی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔”
جموں نے بی جے پی کا انتخاب کیا۔
خطے کے سب سے جنوبی حصے میں، ہندو اکثریتی جموں کے میدانی علاقوں میں، بی جے پی نے 29 سیٹیں جیت کر اپنی تاریخی بہترین کارکردگی ریکارڈ کی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے کیونکہ NC-INC اتحاد کے پاس کافی مینڈیٹ ہے۔ کشمیر میں بی جے پی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔پی ڈی پی نے 2014 کے پچھلے الیکشن میں 28 سیٹیں جیتی تھیں، لیکن اسے ایک بڑا دھچکا لگا اور اس بار وہ تین سیٹوں تک سمٹ گئی۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی کو ان کے آبائی حلقہ سری گفوارہ بج بہاڑہ سے میدان میں اتارا گیا تھا لیکن وہ تقریباً 10,000 ووٹوں سے NC سے ہار گئیں۔مفتی نے نتائج کے اعلان کے بعد میڈیا کو بتایا، "میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینے کے لیے مبارکباد پیش کرتی ہوں نہ کہ معلق (منقسم) اسمبلی کے لیے کیونکہ انہیں خاص طور پر 5 اگست 2019 کے بعد کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا،” مفتی نے نتائج کے اعلان کے بعد میڈیا کو بتایا۔ "ان مسائل کے ازالے کے لیے ایک مستحکم اور مضبوط حکومت ضروری ہے۔”
پی ڈی پی کی سربراہ نے کہا کہ اگر واضح مینڈیٹ نہ ہو تو پھر کوئی مہم جوئی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی دہلی کو فیصلے سے سبق لینا چاہیے اور حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔”انہوں نے (ووٹرز) سوچا کہ این سی-کانگریس اتحاد ایک مستحکم حکومت فراہم کرے گا اور بی جے پی سے لڑے گا اور اسے دور رکھے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی سب سے بڑی وجہ ہے (این سی-کانگریس اتحاد کی جیت کی)،” مفتی نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ عوام کے مسائل الیکشن سے ختم نہیں ہوتے۔
انتخابی حلقوں کی تشکیل نو
اس بار کشمیر میں انتخابی نتائج 2022 کی حد بندی کے عمل سمیت کلیدی عوامل سے تشکیل پائے۔ اس مشق نے انتخابی حلقوں کو نئی شکل دی اور جموں کو برتری حاصل کر کے دی، جو کہ زیادہ تر بی جے پی کی حامی رہی ہے، اس طرح وادی کشمیر میں NC اور PDP جیسی جماعتوں کے سیاسی اثر و رسوخ کو کم کر دیا ہے۔ 2022 کی حد بندی نے جموں کی نشستوں میں اضافہ کیا جبکہ کشمیر کے حلقوں کے وزن کونسبتا” کم کیا، جہاں بی جے پی مخالف جذبات زیادہ مضبوط ہیں۔
نتیجے کے طور پر، NC کو، واحد سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے باوجود، اس سیاسی تنظیم نو کے اثرات کی وجہ سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ حلقوں کی اس متزلزل دوبارہ تقسیم کو بڑے پیمانے پر بی جے پی کے حق میں جانے کے حربے کے طور پر دیکھا گیا۔ اس نے وادی کے بہت سے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے تنقید حاصل کی، جنہوں نے اسے کشمیریوں کی سیاسی نمائندگی کو کمزور کرنے کی ایک حسابی کوشش کے طور پر دیکھا۔
ایک اور عنصر جس نے جموں میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا وہ تھا امیدواروں کے انتخاب میں کانگریس پارٹی کی غیر فیصلہ کن سوچ اور جموں میں ایک زبردست متبادل پیش کرنے میں ناکامی۔ اس سے حزب اختلاف کی ایک اہم قوت کے طور پر اس کی پوزیشن کمزور ہوئی۔کانگریس پارٹی کے اندر ہم آہنگی کے اس فقدان نے بی جے پی کو واضح عدم اطمینان کے باوجود جموں میں اپنی حمایت مضبوط کرنے کی اجازت دی، خاص طور پر بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مقامی کاروبار کی معاشی بدحالی جیسے مسائل کی وجہ سے۔
سیاسی منظر نامے کی تبدیلی
پچھلے پانچ سالوں میں کشمیر کا سیاسی منظرنامہ غیر معمولی طور پر تبدیل ہوا ہے۔اس بار مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ کالعدم مذہبی علیحدگی پسند گروپ جماعت اسلامی (جے ای آئی) جس نے ماضی میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، نے بھی حالیہ انتخابات میں آزاد پراکسی امیدواروں کے ذریعے حصہ لیا۔ وہ کوئی بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہا۔سری نگر کے ایک مقامی استاد، عبداللطیف نے RT کو بتایا، "ووٹرز کے نقطہ نظر سے، ہمیں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت تھی جو ہماری بات سن سکے۔” "ہمارے پاس اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے کافی آپشنز نہیں تھے اور یہ 2019 کے اس فیصلے کے خلاف اختلاف ظاہر کرنے کا ایک جمہوری طریقہ تھا جس فیصلے نے ہمیں بے اختیار کر دیا ہے۔”
انتخابات میں، الطاف بخاری کی قیادت میں ‘اپنی پارٹی’، سجاد لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس، اور عبدالرشید شیخ (مقبول انجینئر رشید کے نام سے مشہور) کی قیادت میں عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) جیسے گروپوں نے میدان حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ ایسی جماعتوں کو مقامی لوگ نئی دہلی کی پالیسیوں کے ساتھ بہت زیادہ ہم آہنگ دیکھتے ہیں۔جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع کے ایک رہائشی، غلام محمد نے کہا، "ان جماعتوں نے بڑھتے ہوئے بکھرتے اور پیچیدہ سیاسی ماحول میں مطابقت برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی ہے، جہاں آبادی سیاسی خطوط پر زیادہ تقسیم ہے۔”
این سی جیسی پارٹیوں نے ووٹروں کے گڑھ میں مضبوط مقام بنا لیا ہے، جن میں خاندانی وراثت اور سیاسی موجودگی کی طویل تاریخ ہے، جس کی وجہ سے نئی یا چھوٹی پارٹیوں کے لیے اپنا راستہ بنانامشکل ہو گیا ہے۔سری نگر کے 35 سالہ انجینئر محمد حشمت نے کہا، "ہمیں امید ہے کہ نئی حکومت لوگوں کو بااختیار بنائے گی اور بے روزگاری جیسے مسائل کو حل کرے گی۔” "لیکن ہم اپنے حقوق واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے 2019 میں کھوئے تھے۔”مجموعی طور پر، عمر عبداللہ کے لیے ایک مشکل کام سامنے ہے، جب کہ بی جے پی،ہمیشہ سے انتشارکے شکار اس سرحدی علاقے میں جمہوریت کی واپسی کا دعویٰ کر سکتی ہے،۔
واپس کریں