دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان اسرائیل اور اسلامی ٹچ ۔سبطِ حسن گیلانی
No image ۔ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں مگر ہر گورنمنٹ کا خاص کر اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر اسرائیل سے ہمیشہ رابطہ رہا ہے اور آج بھی ہے اور یہ بہت ضروری ہوتا ہے سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد اسرائیل کے متعلق پاکستان کی پالیسی کا نمبر آتا ہے تو مشرق وسطی میں خاص کر عرب ممالک اور خطے میں پاکستان کی اپنی کوئی آزاد پالیسی نہ تھی نہ ہے وہ صرف سعودی عرب کو فالو کرنے کی پالیسی ہے کیونکہ سعودی عرب سے ہمارے اٹوٹ رشتے ہیں۔ ہاں اس میں جذباتیت اور باولا پن ضرور ہمارا ہے ۔ اور اس میں ہم خود کفیل واقع ہوے ہیں۔ پچھلے ہفتے سے پاکستان کی سیاست کی پیالی میں بہت شور برپا ہے کہ موجودہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے جس سے متاثر ہو کر گرمی کے موسم میں ہمارے وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو گلے میں فلسطینی یک جہتی کے سلوگن پر مبنی مفلر لٹکا کر اسمبلی میں آنا پڑا ۔ اصل وقوعہ ہے کیا بس اس پر مختصر سی نظر ڈالنی ہے تاکہ ہمارے دوستوں کی نظر میں کوئی دھند ہے تو صاف ہو جاے ۔ پاکستانی امریکن لوگوں کا ایک مختصر سا وفد اپنے طور پر فلسطین اور اسرائیل گیا تھا جس طرح دوسرے ہزاروں پاکستانی وہاں جاتے ہیں ۔ کوئی سوال کرے گا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کرنا منع ہے تو یہ بات درست ہے مگر اسرائیل اپنے ملک میں داخل ہونے والوں کو الگ سے ایک پرمٹ جاری کرتا ہے جس پر انٹری اور ایگزٹ کی مہر لگتی ہے نہ کہ پاسپورٹ پر اور یہ طریقہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں سب کے ساتھ ایسا ہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

ہر سال ہزاروں پاکستان زیادہ تر بیرون ممالک سے وہاں جاتے ہیں گھومتے ہیں پھرتے ہیں مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرتے ہیں قبلہ اول اور انبیاء بنی اسرائیل کے آثار کی زیارت کرتے ہیں ۔ کئی ایک کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں میری اپنی بھی خواہش ہے مگر ابھی تک جیب اس کی اجازت نہیں دے رہی ۔ یہ پاکستانی امریکی ایک این جی او سے وابستہ ہو کر وہاں گئے تھے جس کی قیادت ایک پاکستانی امریکی خاتون انیلا علی کر رہی تھیں۔ انیلا علی بنیادی طور پر سندھی ہیں اور اوائل عمری میں تیس سال قبل پاکستان چھوڑ چکی ہیں۔ اس وفد میں ایک ملکی و بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی احمد قریشی بھی شامل تھے ۔ احمد پی ٹی وی کے ملازم نہیں تھے نہ وہاں انہیں فواد چوہدری نے بھرتی کیا تھا ۔ وہ جنرل مشرف کے دئور آمریت میں پی ٹی وی کے ملازم ضرور رہے ہیں مگر آج کل وہ فری لانسر ہیں اور زیادہ تر کام مشرق وسطی کے ذرائع ابلاغ میں کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک دوسرے پاکستانی فشل بن خالد تھے جو پاکستانی یہودی ہیں اور وہ پہلے یہودی جنہیں ان کے مذہب کی شناخت کے مطابق پاکستان میں پہلی دفع پاسپورٹ اور شناختی کارڈ گزشتہ عمران حکومت میں جاری ہوا تھا جو ایک اچھا اور قابل تعریف عمل تھا مگر عمران خان صاحب پبلک میں اس کا کریڈٹ لینا نہیں چاہتے ۔ فشل کی خواہش پر انیلا علی سابق عمران حکومت کے وزیر مذہبی امور نورالحق قادری سے باقاعدہ اجازت لے کر اسے ساتھ لے کر گئیں تھیں۔

اس وفد یا مختصر قافلے میں سکھ عیسائی مسلمان یہودی سب شامل تھے اور مقصد بین المذاہب امن اور بھائی چارے کو فروغ دینا تھا نہ کہ کسی ریاستی پالیسی کے خدو خال بننا اور نہ ہی اس کا تعلق پاکستان کے کسی سرکاری و نیم سرکاری ادارے سے تھا نہ کسی حکومت کے ساتھ نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ۔ اسرائیل کے صدر نے اس بارے جو بات کی ہے اس میں براہ راست پاکستان کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ پاکستانی امریکی وفد کا ذکر تھا ۔ پاکستان میں اسے غلط رخ دے کر مخالف سیاسی جماعت اور حکومت کو ہدف تنقید بنانے کی شرارت اور فتنے کی موجد ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ ہیں جنہوں نے اسے اسلامی ٹچ دے کر عمران خان صاحب کے کان میں پھونکا اور خان صاحب نے اسے آگ کا تیر بنا کر حکومت کی طرف چھوڑ دیا ۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کا سیاسی قد کاٹھ بقول ہمارے صحافی دوست اور معروف پنجابی نیشنلسٹ عمار کاظمی صاحب کے ان کے اپنے قد کاٹھ سے بھی دو فٹ چھوٹا ہے اور اس طرح کے مشیر و وزیر ایسے فتنہ پرور کھیل رچا کر مشورے دے کر خان صاحب کا سیاسی قد کاٹھ بھی ہموار کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
واپس کریں