دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شیطانی چکر سے کیسے نکلا جائے؟
No image ڈاکٹر عشرت حسین:: آج ایک غیر یقینی صورت حال نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تباہی کے نقیب من گھڑت، منفی، جزوی اور متعصبانہ خبریں پھیلارہے ہیں۔ ان کی ارزاں کردہ بے بنیاد کہانیوں اور غیر حقیقی اعدادوشمار اور ڈیفالٹ، دیوالیہ پن اور سری لنکا کے ساتھ مماثلت کی پیشین گوئیوں نے ایکویٹی، قرض اور کرنسی کی مارکیٹ کوہلا کررکھ دیا ہے۔

بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی بانڈز پر کریڈٹ ڈیفالٹ ریٹ کے غیر معمولی بلند ی طرف جانے سے ان منڈیوں کو استعمال کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ تاہم، کسی کو تو ملمع کاری کے بغیر حقائق اور درست اعداد و شمار پیش کرنے چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں بہت زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے جو ہماری شرح مبادلہ اور اس کے نتیجے میں شرح سود پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آنے اور قرض کی بھاری بھرکم رقوم کی ادائیگیوں کے لیے ہمیں قلیل مدتی اور تجارتی دونوں طرح کے قرضے لینا پڑتے ہیں۔ اس سے ہمارے پہلے سے موجود قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوتا ہے اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی آتی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہوتے صرف چھ ہفتوں کی درآمدات کے لیے رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کرنسی کی قدر مزید گرنے کی پیش گوئی کرنے والے اس کھیل میں شامل ہوجاتے ہیں جس سے کرنسی کی مارکیٹ مزید دبائو کا شکار ہوجاتی ہے۔ مہنگائی کی شرح معمول سے تجاوز کر گئی ہے اور گزشتہ چار برسوںمیں قیمتوں میں چالیس فیصد اضافہ محدود آمدنی والے افراد کی زندگی مشکل بنا رہا ہے۔ یہ تشویش ناک معاملات ہیں اور ان سے احتیاط و تدبر سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ تجارت کا توازن مزید نہ بگڑنے پائے۔ گزشتہ دو برسوںمیں شرح نمو تقریباً 6فیصد رہی، زرعی اجناس کی مقامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے زرعی آمدنی میں گزشتہ سال 1100ارب روپے کا اضافہ ہوا، کارپوریٹ منافع تقریباً 50 فیصدبڑھ گیا۔ بیرونی ممالک سے بھجوائی گئی رقوم میں پانچ سے چھ سو ارب روپوں کا اضافہ ہوا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب گھرانوں میں دو سو ارب روپے تقسیم کیے گئے۔ اس اضافی قوت خرید کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ میں 10 فیصد اضافہ، روزگار کی بلندی، نجی شعبے کے قرضوں کی غیر معمولی مانگ اور غربت میں کمی آئی ہے۔ اشیا کی برآمدات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئی سی ٹی کی برآمدات دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ ایف بی آر کے ریونیو میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جو پہلے کبھی حاصل نہیں کیا گیا۔

یہاں یہ یاد کرنا برمحل ہوگا، خاص طور پر نوجوان نسل کی اطلاع کے لیے، کہ پاکستان اس طرح کے بحران کا سامنا پہلی مرتبہ نہیں کررہا۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران ہمیں 1998-99، 2008، 2013 اور 2018-19 میں ایسے ہی یا ان سے بھی بدترحالات کا سامنا رہا۔ 1998 میں جوہری تجربے کیے گئے۔ پاکستان میں موجود شہریوں اور غیر مقیم پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے کھاتوں کو منجمد کردیا گیا۔ مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کے باعث معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ دسمبر 1999 تک پاکستان کے پاس اتنا زرمبادلہ نہیں تھا کہ کیماڑی کے باہر لنگر انداز تیل کی ترسیل کے لیٹر آف کریڈٹ کو کلیئر کر سکے۔ قابل استعمال استعمال زرمبادلہ کے ذخائر صرف 300 ملین ڈالر رہ گئے تھے جو ایک ہفتے کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی تھے۔ اکتوبر 1999 میں مشرف کے حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد مزید اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں۔ ملک آج سے کہیں بدتر حالت میں تھا جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ موجودہ نوجوان آبادی کی اکثریت پیدا نہیں ہوئی تھی یا وہ بچپن کے مرحلے میں تھی اس لیے وہ اس وقت کی تباہ کن صورتحال سے واقف نہیں۔ ان کے لیے بجا طور پر موجودہ معاشی صورتحال ایک ناگوار تجربہ ہے۔ معیشت نے لچک دکھائی، ملک نے بحالی کی طرف قدم اٹھایا، اور2008 تک زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 16.5 بلین ڈالر ہو گئے جو چھ ماہ کی درآمدات کے مساوی تھے۔ برآمدات 8.6 بلین ڈالر سے دگنی ہو کر 17 بلین ڈالر ہو گئیں اور سات میں سے تین برسوں میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس تھا۔ بیرونی قرضوں/جی ڈی پی کا تناسب 47.6 فیصد سے کم ہو کر 27.8 فیصد ہو گیا۔ 2007 تک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد 5 بلین ڈالر سے زیادہ تھی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد سے بلند تھی۔ ملک نے آئی ایم ایف پروگرام کو شیڈول سے پہلے کامیابی سے مکمل کیا اور آخری دو قسطیں نہیں لیں کیوں کہ ان کی ضرورت نہیں تھی۔ ان لوگوں کے برعکس جو ان کامیابیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاتمے سے منسوب کرتے ہیں، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ پابندیوں کے اٹھائے جانے اور اتحادی افواج کی حمایت کی وجہ سے آنے والے مالیاتی بہائو نے اخراجات کی واپسی میں مدد کی لیکن یہ میکرو اکنامک استحکام تھا جس نے عوام اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار وں کا اعتماد بحال کیا۔ اس کے بعد 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے ساتھ ساتھ نگراں حکومت کی جانب سے تیل اور اشیائے خوردونوش کی درآمدی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کوصارفین تک منتقل نہ کرنے کے بدقسمت فیصلے نے 2008 میں ایک اور بحران پیدا کیا۔بحرانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہر بار اس وقت رونما ہوتے ہیں جب ہم مجموعی طلب میں اضافے کا مشاہدہ کرتے ہیں کیونکہ معاشی ترقی کی وجہ سے قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، کاروبار پھیل رہے ہوتے ہیں اور لوگ زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں پیٹرولیم یا تیار شدہ مصنوعات، مشینری اور آلات، کیمیکلز، لوہا اور اسٹیل، صنعت کے لیے خام مال حتیٰ کہ دالوں، سبزیوں کا تیل، خشک دودھ بھی پیدا کرنے کی اتنی صلاحیت نہیں۔ چونکہ گھریلو پیداواری صلاحیت اس طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہے، اسلئے درآمدی بل بڑھ جاتا ہے۔ سامان اور خدمات کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی، محنت کش افرادکی ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھاری بھرکم درآمدی بل سے کہیں کم رہ جاتی ہے۔ اس طرح ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتاہے۔اس سوال کو حل کرنے کی ضرورت ہے کہ اس شیطانی چکر سے کیسے نکلا جائے ؟

ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی، تکمیلی اور مستقل مزاجی لانے کے لیے جو ادارہ جاتی انتظام تجویز کرتے ہیں۔ اس کے لیے آرٹیکل 156 کے تحت قومی اقتصادی کونسل آرٹیکل کو مزید موثر بنایا جائے۔ قابل اعتماد نجی شعبے کی تنظیموں کے ساتھ پیشگی مشاورت کی جانی چاہیے۔ متفقہ اقتصادی اور شعبہ جاتی ایجنڈے پر پیشرفت کا جائزہ لینے اور نگرانی کے لیے قومی اقتصادی کونسل کو ہر سہ ماہی میں ملاقات کرنی چاہئے اور جہاں ضرورت ہو اصلاحی اقدامات کرنا چاہئیں۔( جاری ہے) بشکریہ جنگ
واپس کریں