دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مغربی عورت دیکھتا ہوں تو دل میں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں
No image پہلے تو اسے بڑی ہوتے ہی پتہ لگتا ہے کہ میرے جو تین چار بھائی بہن ہیں وہ تقریباً سب یا اکثر الگ الگ باپ سے ہیں، نیز ہر باپ کے بھی اسی طرح اور بچے الگ الگ عورت سے بنا شادی ہوتے ہیں، جسے step کہا جاتا ہے۔
پھر بچپن تو چلو جیسے تیسے گزر جاتا ہے، ٹین ایج میں آتے ہی اس کا بوائے فرینڈ نہ ہونا باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے، یہاں بات ہو رہی ہے بارہ سے پندرہ سالہ بچیوں کی، جہاں بس ایک ہلکی پھلکی ترغیب ہوتی ہے کہ جسمانی تعلق قائم ہونے پر احتیاط رکھنا کہ کہیں غبن نہ ہو جاؤ۔ ورجنٹی تو عموما اسی عمر میں کھو چکی ہوتی ہیں۔
پھر دور آتا ہے جوانی کا یہاں پابندی ہوتی ہے کہ اٹھارہ کی ہونے تک تمہارا رشتہ چاہے جس سے بھی ہو، مگر کسی کے ساتھ رہ نہیں سکتی، ہاں کبھی ایک آدھ رات کسی "دوست" کے یہاں رکنا ہو تو اجازت مل سکتی ہے۔ اس دوران کم از کم مختلف تین چار بوائے فرینڈز اس کی عصمت دری رضامندی سے کرکے آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ کی کوئی لمٹ نہیں ہے۔
پھر اٹھارہ کی ہوتے ہی وہ لڑکی موجودہ بوائے فرینڈ کے ساتھ live in relation کی کوششوں میں ہوتی ہے، جس کے لیے خود کمانا بھی ضروری ہوتا ہے، اور سب سے بڑا جو احساس ہوتا ہے وہ ہے اب میں خود مختار ہوں، تو بنا کسی روک ٹوک، حکومتی آزادی، کوئی خاص تعلیم و تربیت یا دینی مشعلِ راہ کے اب جو دل میں آئے کرتی ہے، راتوں کو کلب جانا اور شراب کے نشے میں دھت کسی کے ساتھ بھی جاکر one night stand ہونا عام سی بات ہے۔ یہاں بہت سی ایسی لڑکیاں بھی دکھتی ہیں جو بتاتی ہیں کہ کیسے ان کے ساتھ بچپن میں اپنوں نے ہی جنسی زیادتی کی، جس کی وجہ سے وہ مردوں سے نفرت کرتی ہے اور آج lasbian ہے۔
نیا دور آتا ہے، جس میں وہ ایک انڈیپینڈنٹ وومن کے طور پر اپنے ہدف متعین کرتی ہے، لیکن مختلف مردوں کا زندگی میں آنا جانا لگا رہتا ہے، اس وقت شاذ ہی ایسا ہو کہ کسی کو شادی کا خیال آئے، ویسے بھی زیادہ تر عوام ملحد یا اگناسٹک ہے تو کسی ایسی پابندی میں بندھنا نہیں چاہتی بس دو ہی ٹارگٹ ہوتے ہیں، یا تو زندگی کو خوب انجوائے کرنا ہے، یا پھر کرئیر بنانا ہے۔

عمر ہوگئی تیس تو اب محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید سیٹل ہوجانا چاہیے، لیکن اتنا سیریس نہیں لیتی، جو اب تک ماں بننے کو تیار نہیں تھی وہ محسوس کرتی ہے جوانی ڈھلنے لگی ہے، گھر نہیں بسایا تو آگے مشکل ہو جائے گی، یہ عام عورت کی بات ہے، فیمینسٹ کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ بہرحال پینتیس کے قریب وہ کسی نہ کسی مرغے کو پھنسا لیتی ہے، وہ بھی پھنس جاتا ہے کیونکہ ہر طرح کی عورت سے جسمانی تعلق قائم کرکے اس رشتے کی اصل لذت تو ترجیح ہوتی نہیں، اب یہی خیال مرد کو ہوتا ہے کہ house income بڑھ جائے گی۔ دونوں کمائیں گے مل کر کھائیں گے۔
بہرحال ساٹھ ستر فیصد عورتوں کی شادی ہو ہی جاتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا ہی الگ ہے، اگر سمجھوتہ کرنے والا کپل ہو تو کام چلا لیتا ہے، ورنہ طلاقیں وہ بھی فخریہ اور دھنادھن۔
اس پورے دور میں وہ کام کرنا نہیں چھوڑتی کیونکہ سب نے یہی سمجھایا ہے کہ یہی تو ہے آزادی! Frustrated رہنا، stress اور depression میں مبتلا رہنا، ادویات میں دفن ہونا عام سی بات ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ بہت ہی کم مرد اب اس میں دلچسپی لے رہے ہیں، پھر دل چاہتا ہے دوبارہ جوان ہونے کا تو قرض لے کر یا جمع پونجی استعمال کرکے مختلف اعضاء کی سرجری کرواتی ہے کہ جوان لگ سکے۔ اب وہ کیا لگتی ہے فطرت کو مسخ کرکے وہ لکھنے سے میں قاصر ہوں۔
چالیس کی پیڑھی میں وہ سنگل مدر کہلاتی ہے، بچے child care میں پل رہے ہوتے ہیں اور وہ نوکری میں مصروف گزری زندگی پر فخر کر رہی ہوتی ہے کہ میں نے اب تک یہ کچھ اچیو کیا یا میرے اتنے باڈی کاؤنٹ ہیں۔
پچاس پر احساس ہوتا ہے کہ کوئی سہارا ہی نہیں، بچے چھوڑ کر اپنے راستے جا چکے ہوتے ہیں، اور اکیلے ہی جینا ہے۔
یہاں سے آگے ایک ایسا کٹھن سلسلہ ہے جو جب تک زندہ اور چلنے پھرنے کے قابل رہتی ہے تب تک کام کرنا اور اپنے کام پر دوسروں کی زندگی اجیرن کرنا ہی مقصد ہوتا ہے۔
کچھ ایسی بوڑھیاں دیکھیں جو بیچاری صبح چار پانچ بجے نوکری پر پہنچتی ہیں، کچھ اور نہیں ملتا تو مزدوریاں بھی کرتی ہیں مگر ان کا جسم اس سب کے لیے بنا نہیں تو جلد بیماریاں پال لیتی ہیں۔
کھڑا نہیں ہوا جا رہا، تھکن سے برا حال، مگر کوئی پرسان حال نہیں، کام نہیں کیا تو اولڈ ہاؤس جانا پڑ جائے گا، پینشن میں ابھی کچھ سال باقی ہیں، خرچے اس سے زیادہ ہیں تو بس کام کام کام۔ اس سے جب کوئی پوچھے کہ ہاں بھئی؟ کیسی تھی آزاد زندگی تو سوائے پچھتاوے اور ندامت کے اس کے پاس کچھ نہ ملے گا۔
واپس کریں