دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بڑھاپے میں زلیل و رسوا ہونے کی کچھ وجوہات
No image تحریر: طاہر راجپوت:::اکثر بوڑھے زیادہ جنسی ہو جاتے ہیں۔ کئی اپنی عورتوں سے لڑتے ہیں۔ اب اس عمر میں عورت سیکس فراہم نہیں کر سکتی۔ کر وہ خود بھی نہیں سکتے لیکن مردانہ سماج میں اس طرح کی باتوں پہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ مرد گھوڑا ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہووں پہ گندی نظر رکھتے ہیں۔ بچے تک محفوظ نہیں ہوتے۔ بیٹیوں تک کو جا کر کہتے ہیں میری دوسری شادی کرواؤ۔ یہ شائد چراغ کے بجھنے سے پہلے کی آخری روشنی ہوتی ہے۔ مال و جائیداد کے معاملے میں کافی کھڑوس ہو جاتے ہیں۔کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے۔ وہمی اور شکی بھی ہو جاتے ہیں۔ اولاد کو وقت پہ جائیداد نہیں بانٹ کے دیتے۔ آخر دم تک تمام طاقت اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ اس چیز کو سمجھتے نہیں کہ گھر میں طاقت کے نۓ مراکز قائم ہو گئے ہیں۔ اکثر کوئی ایک بچہ فیورٹ بنا لیتے ہیں۔باقی اولاد لا تعلق ہو جاتی ہے۔ وقت پہ گھر کی اہم ضرورتوں سے ریٹائر نہیں ہوتے۔ جو ریٹائر ہو جاتے ہیں وہ بے کار سامان کی طرح گھر میں پڑے رہتے ہیں۔ نئی مصروفیات نہیں ڈھونڈھتے۔ جیسے مسجد جانا، نماز، سیر سپاٹا، لکھنا لکھنا، مطالعہ، واک ورزش، گھر کے چھوٹے موٹے کام۔ اسطرح کے نکمے بوڑھے اکثر گھر پہ بوجھ بن جاتے ہیں اور اندرون خانہ لڑائی کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی بڑھاپے کی عمر بھی کم رہ جاتی ہے۔ پانچ سات سال انہی ہنگاموں میں رہ کر ڈپریشن کی نظر ہو جاتے ہیں اور کوئی بے کار سی پریشانی لے کر چلتے بنتے ہیں۔ اولاد دو چار دن کی روایتی فاتحہ پڑھ کر آگے کو بڑھ جاتی ہے۔ اس اثنا میں وہ خود رفتہ رفتہ ان کی جگہ لینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔
بڑھاپے میں خوش رہنے کا ایک حل یہ بھی ہے،
بہت سے لوگوں کو شاندار بڑھاپا بھی گزارتے دیکھا ہے۔ وقت کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریاں اولاد کو سونپ دیتے ہیں۔ وہ سیاہ کریں یا سفید کوئی مداخلت نہیں کرتے۔ کجا کہ کچھ لوگوں نے بیٹوں، پوتوں، دوہتروں کے ساتھ اپنی بہووں کے بھی آنے جانے کے اوقات کار اپنے کنٹرول میں رکھے ہوتے ہیں۔ اس کا پہلا حل ہے کہ پچاس سال کے بعد اپنی پچاس فی صد ذمہ داریاں منتقل کر دیں۔ ساٹھ برس کے بعد اسی فی صد اور ستر سے پہلے تمام تر کلی۔
یہ پیمانہ بھی آپ اپنی صحت کے درجات کو مد نظر رکھ کر اپنا سکتے ہیں۔ اگر آپ شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ کے مریض ہیں تو کم سے کم گھریلو لفروں میں پڑیں۔ پچھلی عمر میں صحت وہ نہیں ہوتی جتنی ہم نے ذمہ داریاں لی ہوتی ہیں، سو ذرا سا دباؤ آیا نہیں تو بابا پار۔ لیکن کوئی نہ کوئی مصروفیات آخری دم تک بناۓ رکھیں۔ میرے پاس پچاسی سال کے ایک بزرگ رہتے ہیں اور میں نے کوئی ہیس سال سے ان کی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی صحت، عادات، اخلاق قابل رشک ہیں۔ حالانکہ کے ان کے گھر تین بیٹے اور بہوویں ہیں اور ساتھ درجن بھر بچے جو اب جوان ہو چکے ہیں۔ ان نے لیکن اپنی زندگی کی اپنی روٹین رکھی ہوئی ہے۔ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں، پھر صبح شام دو وقت واک پہ چلے جاتے ہیں۔ محلے کی فلاحی کمیٹی کا حصہ ہیں اور کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھر میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتے۔ مصروفیات نوجوانوں اور بوڑھوں کے لئے یکساں ضروری ہیں۔ یاد رہے میں یہ بات درمیانی درجے کے بوڑھوں کے لئے کر رہا ہوں نہ کہ بہت ضعیف یا بیمار بوڑھے افراد کے لئے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے لئے اولڈ ہومز اور پروفیشنل سٹاف چاہیے۔
کسی بوڑھے انسان کی اچھی زندگی کا ایک راز اس کی اپنی بیوی سے تعلقات پہ بھی مبنی ہے۔ بیوی سے بڑھاپے میں تعلق اسی صورت اچھا ہو گا اگر آپ نے اسے جوانی میں محبت اور درمیانی عمر میں عزت اور اختیار دیا ہو گا۔ جن گھروں میں عورتوں کے پاس اختیار ہو اور رن مرید قسم کے مرد ہوں ان جوڑوں کی صحت اور محبت آخری دم تک قائم رہتی ہے۔ عورت جوانی میں تذلیل تو برداشت کر لیتی ہے لیکن جب اولاد جوان ہو جاۓ تو ان کو ساتھ ملا کے گن گن کے بدلے لیتی ہے۔ اس لئے شریک حیات آپ کی خوشی کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جنس یعنی سیکس جوانی کے لئے ہے تا کہ اولاد پیدا ہو اور زندگی کا دم چکر چلتا رہے۔ انسانوں کے سوا شائد ہی کوئی مخلوق لذت کے لئے سیکس کرتی ہے۔ پچھلی اور درمیانی عمر میں سنگ ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے بیکن کہتا ہے کہ "بیویاں نوجوانوں کی کنیزیں، درمیانی عمر کی ساتھی اور بڑھاپے کی نرسیں ہیں"۔ پس پچھلی عمر میں روحانیت میں لذت تلاش کریں۔ جیسے میں نے پچھلی پوسٹ میں کہا عبادت، غور و فکر، مطالعہ، سیر سپاٹا یا لکھنا۔ یہ سب سرگرمیاں جنس کا متبادل ہیں اور منفی انرجی کو خارج کرتی ہیں۔ اب کیا کریں یہاں اسی اسی سال کے بوڑھے حکیموں کے پاس جاتے پاۓ جاتے ہیں۔

ہم بڑھاپے میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں ؟
تحریر :افضل بٹ::::: ایک بہت ہی گھمبیر سلگتے ہوئے سماجی مسلے پر سوال اٹھایا گیا ہے جس پر ہم عام طور پر جذباتی ہو جاتے ہیں اور جواب نہیں ملتا اس لیے اس کے سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اور اس کا حل تلاش کرنا ہو گا۔
سوال۔ جو بوڑھے اپنی اولاد سے یا باہر کے لوگوں سے چھتر کھاتے ہیں وہ درست کھاتے ہیں۔
یہ بہت ہی اہم سوال ہے ۔ الفاظ چاہیے سخت استعمال کیا گیا ہے مگر ہے حقیقت ۔ ہم روز اپنے گھروں میں یا معاشرے میں یہ مناظر دیکھتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں۔ آئیے اس کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں کہ کیوں ایک اچھا خاصا معقول بندہ بوڑھا ہوتے ہی لڑنے جھگڑنے لگتا ہے۔
ایک بات تو یاد رکھیئے کہ بڑھاپا پوچھ کر نہیں آتا اور دھکے دینے سے نہیں جاتا۔ اس عمر میں یاداشت اور بیوی ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ آمدنی ختم ہو جاتی ہے۔ معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں سے وہ کٹ جاتا ہے۔ یوں کہہ لیں اب بوڑھا کسی سرگرمی میں حصہ نہیں ہے سکتا اور مایوسی کی وجہ سے گھر میں پڑ جاتا ہے۔ ایسا ہوتا کیوں ہے۔

ہمارے جسم کے تمام سیل ٹوٹتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے بنتے رہتے ہیں مگر مغز یعنی دماغ کے سیل جب مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر زندگی بھر نہیں بنتے۔ اب چالیس سال کے بعد 2 گرام فی سال کے حساب سے مغز کے سال ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایک 60 سال کے بوڑھے کا دماغ 40 گرام کم ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح 70 سال کے بابے کا دماغ 60 گرام کم ہو جاتا ہے۔ دماغ کے سیلوں کی یہ کمی اس کو بچوں جیسے حرکتیں کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ جب ہم بابے کو بچوں جیسی حرکت کرتے دیکھتے ہیں تو ہمیں غصہ آتا ہے کہ دیکھو اس کی عمر اور حرکت ۔ وہ بچارا مجبور ہوتا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں جب ہمارا کوئی چھوٹا بچہ لاڈ کرتا ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہم اسے مزید پیار کرتے ہیں۔ اگر ہمارا کوئی چھوٹا بچہ آرام سے بیٹھ جاے یا لیٹ جاے تو ہم فکر مند ہو جاتے ہیں۔ ہم پورے گھر کو سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ بیوی کو گالیاں نکالنا شروع ہو جاتے ہیں کہ تیری لاپرواہی سے بچہ بیمار ہوا ہے۔ مگر یہی عمل جب ایک بوڑھا کرتا ہے تو ہمیں غصہ آتا ہے ۔ جب ہمیں غصہ آتا ہے تو بابا مزید چڑچڑا ہو جاتا ہے وہ چاہتا ہے مجھے توجہ دی جاے کیونکہ وہ اصل میں بچہ بن چکا ہے اور ہم اس کو بوڑھا سمجھتے ہیں۔یہی وہ مقام ہے جب اولاد اپنی برداشت کھو دیتی۔
واپس کریں