دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کے زومبیز۔ہاتھوں سے لگائی گرہیں
No image زومبیز کی یہ نسلیں بڑی محنت سے تیار کی گئی ہیں۔ سالہا سال چوبیس چوبیس گھنٹے میڈیا کے ذریعے ایک دجال کو مہاتما بنا کر ان کے دل و دماغ میں سجایا گیا ہے۔ خود یہ لوگ آڈیوز ویڈیوز اور دیگر ثبوتوں کے ذریعے اس دجال کی ہر کمزوری سے واقف تھے کہ کہاں یہ جنسی مریض اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ آلودہ ہے اور کہاں علیمہ خان کی سلائی مشینوں سے لے کر پنکی و گوگی گینگ کے توسط سے یہ شوکت خانم ہسپتال و پارٹی فنڈز میں خرد برد سے لے کر توشہ خانہ کی لوٹ مار اور ملک ریاض کی ملی بھگت سے اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگا رہا ہے۔

پلان یہ تھا کہ اس سرتاپا کرپٹ اور نالائق شخص کے گلیمر سے فائدہ اٹھا کر اسے "مسیحا اور مہاتما" بنا کر پیش کیا جائے اور پرانے گھاگ چوروں کو مزید بدنام کر کے عدالتوں کے ذریعے اور محکمہ زراعت کی محنت سے میدان سے باہر دھکیل کر اس نئے مہرے کی آڑ میں اقتدار چلایا جائے۔ اپنے تمام تر آزمودہ و نیب زدہ کرپٹ ترین ٹولے کو اس کی پارٹی میں بھرتی کروایا گیا اور بالآخر آر ٹی ایس بٹھا کر اسے اقتدار کے سنگھاسن پر لا بٹھایا گیا۔ لیکن اس منافق ترین شخص کو سوائے مخالفین پر تبرے کے علاوہ کچھ اور آتا ہی نہ تھا۔

نہ وہ "دو سو ماہرین" کی ٹیم نکلی اور نہ ہی مبینہ بیرون ملک سے اس کے چاہنے والوں کے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ آئی جس کے خواب یہ دکھایا کرتا تھا۔ الٹا بیرون ممالک سے چن چن کر انیل مسرت، شہباز گل، زلفی بخاری، چیکو اور ابراج گروپ جیسی جونکوں نے لوٹ مار کی نئی نئی راہیں تلاش کر لیں۔ حالات یہ ہیں کہ اس شخص کے پونے چار سالہ اقتدار کے بعد ملک اور اس کے زیر انتظام صوبے پختون خوا اور پنجاب کھربوں ہا روپے کے مقروض ہو کر ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ منافقین کے اس ٹولے کا سب سے بڑا ہتھیار جھوٹ اور سوشل میڈیا کا مکر ہی رہا۔ بیرون ممالک سے تعلقات آہستہ آہستہ اس نہج پر پہنچا دئیے گئے کہ اس کا اقتدار خود اس کے ہینڈلرز پر بوجھ بن گیا۔
ہینڈلرز نے جس بے رحمی سے اپنی اس پراڈکٹ کے نخرے اٹھائے اور اس کی نیپیاں بدلیں، کہ خود اس حمایت کو اس کٹھ پتلی نے اپنا حق جان لیا ہے۔ گندگی میں لتھڑا ہوا یہ شخص اور اس کا اندھا فین کلب اب پرانی پالیسی ہی کا تسلسل چاہتا ہے۔ یوٹرن کو بہترین پالیسی سمجھنے والے سے جب ہینڈلرز نے یوٹرن لیا تو اب ان کی چیخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ”پراجیکٹ عمران خان" اب ایک بوجھ بن چکا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تمام معمار پس پشت جا چکے ہیں اور نئی اسٹیبلشمنٹ جس سے مہاتما بھی خائف ہے اپنے تمام تر "غیر سیاسی" دعوؤں کے باوجود اس پراجیکٹ کو سمیٹ رہی ہے۔ مہاتما اور اس کے بھگت جو مرضی کر لیں ان کی حقیقت اب آشکار ہو کر رہے گی اور اسے اپنے گناہوں کا حساب دینا ہو گا۔ مہاتما کی پارسائی کا چولہ اب بیچ بازار تار تار ہو گا، یہ اپنی کھلی کرپشن کی بدولت مجرم ٹھرایا جائے گا اور نااہل قرار دلوا کر پس زنداں بھی دھکیلا جائے گا۔

یہ شخص معاشرے کا ناسور ہونے کے ساتھ ساتھ اب ملکی معیشت و سیاست پر ایک بوجھ بن چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا یہ ناکام ترین تجربہ، درحقیقت ملکی معیشت اور خود ان کی چُولیں ہلا چکا ہے۔ دکھ بس یہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ جو جو کھیل کھیلے گئے، اس کے نتیجے میں اب پاکستان کا دوبارہ ٹریک پر آنا ایک معجزہ ہی لگتا ہے۔ ملکی سیاست پرانے گِدھوں کے رحم و کرم پر ہے، اسٹیبلشمنٹ پہلے کی طرح ہی توانا ہے، اور پراجیکٹ عمران خان لپیٹنے کا عمل رہی سہی کسر نکال رہا ہے۔
یہ ہاتھوں سے لگائی گرہیں ہیں جو دانتوں سے بھی اب بمشکل کھلیں گی، شائد ان گرہوں کو کھولتے لگانے والوں کے اپنے چند دانت بھی ہل جائیں گے۔ کاش ہم اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھ پائیں اور اسٹیبلشمنٹ سے لے کر سیاسی جماعتیں، عدلیہ، بیوروکریسی، میڈیا، عوام اور اس ملک کا ہر طبقہ اپنا قبلہ درست کر سکے۔ بالخصوص ان منافق ترین لیڈروں کو بت بنا کر پوجنے والے بھگتوں کو چاہیے کہ اب ہوش کے ناخن لیں اور اس "ہیرو ازم" کی پالیسی سے توبہ کر لیں۔
اللہ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے اور اس ملک کو ان تمام بحرانوں سے سرخرو ہو کر نکالے۔ آمین یا رب العالمین منقول:
واپس کریں