دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دہشت گردی کا سانس لیتا عفریت “
ظفروانی
ظفروانی
مختلف زراٸع اور مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کے مندرجات اور انکشافات انتہاٸی تشویشناک ہیں کہ ڈی آٸی خان سے لیکر وزیرستان , دوسری طرف کوہستان سے اوپر تک پراسرار ٹی ٹی پی یا شاید داعش کے بندوق برداروں کا راج ہے وہ کھلے عام مسلح حالت میں, جتھوں کی شکل میں گھوم اور عوام کو خوفزدہ کر رہے ہیں , نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے , کہ صوباٸی حکومت کے وزراء اور عہدیدار تک ان دہشت گردوں کو اپنی جان کے تحفظ کے لٸیے ماہواربھتہ دے رہے ہیں , قوم سوال کرتی ہے کدھر ہے ہمارا دفاعی نظام , کدھر ہیں ہماری مایہ ناز مسلح افواج , کہاں ہیں خود کو دنیا میں ” نمبر ون “ قرار دینے والے خفیہ اداروں , لاکھوں کی تعداد میں بھرتی شدہ پیرا ملٹری فورسز کے ہوتے ہوے ,

ہماری سرحدیں ان دہشت گردوں اور سمگلروں کے لٸیے کیوں اور کس طرح کھلی ہیں , کہ وہ دہشت گرد اور سمگلرز بغیر کسی روک ٹوک کے , جہاں سے چاہتے ہیں, بارڈرز کراس کر لیتے ہیں , یہ دہشت گردی اور ان کی کھلی اور واضع بلکہ ” فخریہ “ سرپرستی ایک پوری تاریخ رکھتی ہے , چند ہی برس برس قبل سیکورٹی اداروں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر بہت بڑی تعداد میں یہی پاکستانی عوام اور فورسز کے دہشت گرد قاتل بڑی تعداد میں گرفتار کٸیے , جن کی بڑی تعداد بعد ازاں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر بیرونی مدد گاروں کی امداد اور زمہ داران کی مجرمانہ کوتاہی کی وجہ سے جیل پر قبضہ کرنے اور پھر وہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں ان کے گروپس کے جھنڈے لگی گاڑیوں کی قطار میں نعرے لگاتے ہوے سترہ مضبوط ترین چیک پوسٹس سے گزرتے ہوے دو سو چالیس کلو میٹر دور افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہو گٸے راستے میں ان سینکڑوں دہشت گردوں کوباقاٸدہ دستر خوان بچھا کر ناشتہ تک کروایا گیا , اور جن کا کام اور زمہ داری ان دہشت گردوں کو روکنا تھا ان میں سے کوٸی ایک بھی سامنے نہ آیا , نہ ہی بعد میں اس واقعے کے سہولت کاروں اور مددگاروں سے کوٸی جواب طلبی , پوچھ گچھ یا تادیبی کارواٸی کی گٸی ,گویا جن زمہ داروں, سہولت کاروں اور ان کے سرپرستوں کو اس کوتاہی پر دیواروں کے ساتھ کھڑا کر کے فاٸرنگ سکواڈ کے زریعے ہلاک کیا جانا چاہٸیے تھا, ان کو ہر جواب دہی اور سزا سے تحفظ دیا گیا , لیکن ان دہشت گردوں کے خلاف موثر کارواٸی کرنے والے قوم کے قابل فخر بیٹے کے پی کے پولیس کے ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغواء کرنے کے بعد بدترین تشدد سے ہلاک کر کے افغان بارڈر کے چند سو فٹ اندر بھینک دیا گیا ,

پرویزمشرف پر حملہ کےمجرموں کی سات نسلوں کو ڈھونڈ نکالنے والے ہمارے مایہ ناز ادارے آج تک پاکستان کے تحفظ کے لٸیے اپنی جان کا نزرانہ پیش کرنے والے اس بیٹے کے قاتلوں کا سراغ تک نہ لگا سکے , کیا دنیا کے کسی پسماندہ ترین اور کمزور ترین ملک بھی ایسا ممکن ہے , وہ بنگالی جن کو ہم حقارت سے عسکری خدمات کے لٸیے نااہل قرار دیتے تھے , زرا جا کر ان کابارڈر کنٹرول جو بھارت جیسی بڑی طاقت کے سامنے ہےملاحظہ فرما لیجٸیے , برما کو دیکھ لیں, ایک ہم جو خود کو عالم اسلام کے عسکری قاٸد قرار دیتے ہیں ہمارے ملک کے اندر اور سرحدات پر کنٹرول کا یہ عالم ہے , اپنے جاٸز حقوق اور ایسی شدید مجرمانہ نااہلی پر بات کرنا اور سوال اٹھانا تو یہاں غداری قرار دیا جاتا ہے, اور جس کے مرتکب کو صفحہ ہستی سے مٹا یا غاٸب کر کےباقی محب الوطن اور پاکستان کے آٸین و قانون پریقین رکھنے والوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پر مجبورکیا جاتا رہا , لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے , ہم اپنے وطن کو اس طرح تباہ ہوتے , اور سازشوں کا شکار ہوتے مزیدنہیں دیکھ سکتے . قوم کوبتایا جاے کہ کیا ان دہشت گردوں کو پاکستان کے نہتے عوام اور سویلین لیڈرز نے روکنا اور ان سے لڑنا ہے ؟

پاکستان کے عوام حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں, کہ ملک میں امن امان , دہشت گردی کے سدباب اور اس کام میں ان کے سرپرستوں اور مددگاروں کے خلاف کھلی اور سخت ترین فوری کارواٸی کی جانی چاہٸیے , ان کے مکروہ چہرے قوم کے سامنے لاے جاٸیں, اور جو ادارے یا افراد اس فرض پرمامور رہے, یا ہیں , ان کے زاتی اثاثوں کا باریکی سے جاٸزہ لیا جاے, اور ان سے اس شدید پیشہ ورانہ ناکامی کی وجوحات پوچھی جاٸیں, اور زمہ دار اور ملوث افراد کو قانون کی زد میں لا کر عبرت کی مثال بنا دیا جانا چاہٸیے ۔

پاکستان ہی کسی بھی سیاسی وابستگی کے قطع نظر, ہماری آخری اور حتمی منزل ہے, یہاں سے آگے بحیرہ عرب ہی ہے ۔ اس لٸیے اب بھی وقت ہے, کہ مکمل یکسوٸی اور خلوص نیت کے ساتھ ان مٹھی بھر دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا مکمل طور پر خاتمہ اور اس قاتل ,خونی اور دہشت گردی کے نظریہ کا اس کے ”منبع جات “ سمیت مکمل اورمستقل طور پر قلع قمع کر دینا چاہٸیے , ورنہ یاد رکھیں , پاکستان کے اصل مالک اور وارث پاکستان کے عوام کے ہاتھ آپ کے گریبانوں اور گردنوں سے زیادہ دور نہیں ۔
واپس کریں