ظفروانی
یہ سب حکومتی سروسز عوام پر بوجھ بن چکی ہیں ، آفیسران سرکاری گاڑیوں میں عیاشیاں اور سیریں کرتے پھرتے ہیں ، سرکاری دفاتر میں دن دیہاڑے پنکھے چلا کر کام کے بہانے آرام کرتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے " حاصل کردہ تازہ ترین" شعور" کے تقاضے اور " خوف " کے پیش نظر جملہ بلکہ تمام محکمہ جات جیسے پی ڈبلیو ڈی ، محکمہ صحت، محکمہ برقیات ، محکمہ تعلیم و تدریس ، پولیس ، محکمہ مال ، اور انتظامیہ بلکہ عدلیہ و دیگر تمام فضول محکموں کے تمام ملازمین و آفیسران کو مکمل طور پر اپنی نوکریوں سے فارغ کر دیا جانا چاہئیے، تاکہ وہ "جس جس ملک" سے آے ہیں وہیں تشریف لے جائیں ، اور عوام کو رضاکارانہ طور پر یہ سب انتظامات خود سنبھال لینے چاہئیں ۔ تو بہت "بہتری" آ سکتی ہے ۔ بجٹ کی رقم کو تنخواہوں اور دیگر فضول ترقیاتی کاموں میں ضائع کرنے کے بجاے آبادی پر تقسیم کر کے ہر شخص کے حصے میں آنے والے ستر ہزار سالانہ اس کے حوالے کر دئیے جانے چاہئیں، ۔
سنا ہے وفاقی حکومت ہر صوبے/ علاقے کو بجلی اپنے لئیے خود پیدا کرنے اور اپنے صوبوں میں تعمیر شدہ منصوبوں پر واجب الادا قرضوں کی عالمی اداروں کو واپسی بھی ان صوبوں کی ہی زمہ داری قرار دینے والی ہے، کسی بھی صوبے کے لئیے بجلی یا کوئی بھی دوسری چیز کسی دوسرے صوبے کو دینے پر مکمل پابندی لگا دی جاے گی ۔ بلکہ یہ بھی سننے آ رہا ہے، کہ تمام صوبوں/ علاقوں کو خط لکھے جا رہے ہی کہ وہ اپنے صوبوں سے گزر کر یا بہہ کر آنے والے دریاوں کے " اپنے " پانی کو اپنے اپنے علاقہ میں ہی فوری طور پر مکمل اور مستقل روک دینے کا انتظام کریں ، ورنہ اگر یہ پانی بہہ کر دوسرے صوبوں کے علاقوں میں گیا تو جہاں سے یہ پانی آ رہا ہو گا اس علاقے / صوبے کو اس کا کرایہ دینا پڑے گا ، اس کے علاوہ ایک علاقے / صوبے سے دوسرے علاقے تک ہر قسم کی نقل و حمل اور آزادانہ آمدو رفت پر مکمل پابندی لگا دی جاے گی ۔ تاکہ ہر علاقہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو ، اور کوئی صوبہ یا علاقہ کسی دوسرے کے وسائل پر ڈاکا نہ ڈال سکے ، اور خود مختار بن سکے ۔
یہ تجاویز نافظ العمل ہونے کے بعد عوام کو درپیش اکثر مسائل خودبخود مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے ۔ اور راوی چین کی بنسری بلکہ ڈھول بجاے گا ۔
آزاد کشمیر کے علاقے میں مہنگائی اور " دیگر " معاملات کے بارے میں عوامی احتجاج کے بعد حاصل شدہ عوامی بیداری اور شعور کے مثبت اثرات علاقے میں نظر آنے شروع ہو چکے ہیں ، سڑک سے گزرتی ہر سرکاری گاڑی میں سوار آفیسر یا عملے کو عوام کی طرف سے "مثبت" قسم کی گھیرا بندی اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، ضرورت مگر یہ ہے کہ اس کام کو اب زرا " منظم " انداز میں عمل میں لایا جاے ، اور ان شعور سے ابلتی عوامی ٹولیوں کو اس کام لئییے ان حالیہ احتجاجی اجتماعات کے شعلہ بیان مقررین کی طرف سے SOPs ( سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز ) جاری کئیے جائیں ۔ گو کہ "غاصب" سرکاری افسران کو اب سرکاری گاڑی میں ڈیوٹی کے دوران ہی سفر کرنے پر عوام کی طرف سے جائز طور پر " باز پرس" کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، اور ان کو ہجوم کو تفصیل سے یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ کہاں سے کتنے فاصلے سے آ رہے ہی ،کہاں اور کیوں ، کتنے فاصلے تک کتنی دیر کے لئیے جا رہے ہیں ، اور اگر فلاں جگہ ، فلاں روڈ یا فلاں کام پر جا رہے ہیں تو فلاں روڈ یا فلاں کام پر کیوں نہیں جا رہے ، گاڑی میں پیٹرول کتنا اور کہاں سے ڈالا ہے ، اس کی رسید کہاں ہے ، ( اس رسید کی عوام کی طرف سے اسی وقت متعلقہ پیٹرول پمپ سے تصدیق بھی کی جاے گی ،آفیسر کے بال کتنے لمبے ہیں ، اس نے بالوں میں یہ کنگھی کیوں کر رکھی ہے ، کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس کے بال نہیں تو اس کی " ٹنڈ" کیوں اتنی چمک رہی ہے ، کہیں ۔ گاڑی میں موجود بریف کیس میں کیا ہے ، اس معاملے میں آفیسر کے بیان پر اعتبار کرنے کے بجاے بریف کیس کھول کر اس کے بیان کی تصدیق ضروری ہے ، یہ جو فائلیں گاڑی کے ڈیش بورڈ پر پڑی ہیں ان میں کیا لکھا ہے ، اور کیوں لکھا ہے ؟
ان تمام اہم معاملات کی اس آفیسر سے مکمل وضاحت حاصل کی جانی چاہئیے ، اس آفیسر یا اہلکار نے اتنے صاف استری شدہ کپڑے کیوں پہنے ہوے ہیں، اس بات کی بھی اس سے تسلی بخش وضاحت لی جانی چاہئیے ، اور اگر یہ سب امور درست بھی پاے جائیں تب بھی اس آفیسر یا اہلکار کو جانے کی اجازت دینے سے پہلے ہجوم میں سے کوئی جزباتی ، نوجوان اس آفیسر یا اہلکار کےچہرے پر ایک تھپڑ ضرور رسید کرے ، تاکہ اس سرکاری ملازم کو یاد رہے کہ وہ دراصل عوام کا ہی نوکر/ ملازم ( پبلک سرونٹ ) ہے ۔ اگلے چوک پر بیدار شعور شدہ عوام کی ایک اور ٹولی یہی سارا عمل اور پوچھ گچھ دوبارہ سے دہراے، اتنا ضرور یقینی بنایا جانا چاہئیے کہ تھپڑ مارنے والا کم از کم ایک نوجوان ضرور ہر ایسی ٹولی میں ضرور موجود ہو ، بلکہ اس سارے عمل کو اتنی بار دھرایا جانا چاہئیے، کہ وہ اہلکار کچھ ہی فاصلے پر اپنی سرکاری گاڑی سڑک پر ہی چھوڑ کر پیدل ہی اپنے فرض کی تکمیل کے لئیے روانہ/ فرار ہو جاے ۔ اسی طرح شعور سے ابلتی عوام کی ٹولیاں مختلف دفاتر میں جا کر نہ صرف اہلکاران و افسران کی حاضریاں چیک کریں، بلکہ تمبر کی لاٹھیاں ان کی میزوں پر بجا بجا کر ، ان کی " کارکردگی پر بھی باز پرس کریں ۔ یہ ضرور چیک کیا جاے کہ کہیں دفتر کا کوئی پنکھا نہ چل رہا ہو ، تاکہ عوامی وسائل کا ضیاں ممکن نہ رہ سکے ۔۔۔ ایسے اقدامات کی فہرست تو بہت طویل ہے جس کی متقاضی یہ مختصر تحریر کسی طرح نہیں ہو سکتی ، لیکن اتنا یقینی ہے کہ اس طرح ریاست کو ان فضول اور " خزانے " پر بوجھ افسران ، کام چور ملازمین اور اہلکاران سے نجات ضرور مل جاے گی ۔ عوام کی حکومت ، عوام کے لئیے ، عوام کے زریعے ، تمبر کی لاٹھیوں کی مدد سے ۔
واپس کریں