دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریک آزادی کشمیر کے خلاف اقدامات کی نئی جہت
ظفروانی
ظفروانی
مقبوضہ کشمیر سے بہت عجیب اور تشویش ناک اطلاعات آ رہی ہیں , بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی آٸینی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی غاصب حکومت کے ایسے سیاسی و انتظامی اقدامات ، جن کا مقصد کشمیری عوام کے جزبہ حریت کا مستقل سدباب اور ان کی یہ آواز اٹھانے کی صلاحیت کا بزور خاتمہ تھا ، اس سلسلے میں مختلف قسم کے اقدامات عمل میں لاے گئے ، کشمیر کے شہری و دیہاتی علاقوں میں مسلح فورسز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ اور استعمال سے کشمیریوں کی طرف سے اپنے جائز مطالبہ کی پرامن احتجاج کے طریقے سے آواز اٹھانا بھی ناممکن بنا دیا گیا ، زرائع ابلاغ پر کنٹرول اور انھیں حریت کی آواز اٹھانے والوں کی نشاندھی کے لئیے استعمال کیا جانے لگا ، ساتھ ہی سٹیٹ سبجکٹ کے قانون کا خاتمہ کرتے ہوے بہت بڑی تعداد میں بیرونی آباد کاروں کو کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور آباد ہونے کی ترغیب دی جانے لگی ، کشمیر کی تحریک آزادی کی تمام سیاسی قیادت کو ان کے نظریات کی پاداش میں طویل مدت کے لئیے جیلوں میں ڈال دیا گیا ، اب تازہ اقدام کے طور پر بڑی تعداد میں بلڈوزرز کشمیر میں لا کر فوج کی بھاری موجودگی میں, حریت پسندوں اور ان کی حمایت کرنے والے عوام کی اپنی ملکیتی جائیدادوں سے بےدخلی اور ان کی ضبطی اور مسمارگی کا عمل بڑے پیمانے پر شروع کر دیا گیا ہے۔

ان حالات میں کشمیری عوام کے سامنے اپنے جزبات کے اظہار کی کون سی راہ بچتی ہے ، سیاسی احتجاج کے حق کو طاقت کے ظالمانہ استعمال سے روکنے اور غیر انسانی پابندیوں کے اس ماحول میں کشمیری عوام کی طرف سے علامتی و عملی طور پر مسلح مزاحمت بھی مسلسل جاری رہی, اور آج اس مسلح مزاحمت میں شامل حریت پسندوں کی نوجوان نسل جو مکمل طور پر مقامی پس منظر رکھتے ہیں, اور انہوں نے کبھی سرحد یا کنٹرول لائن عبور نہیں کی ، اپنی مسلح مزاحمت ان تمام مشکلات کے باوجود جاری رکھے ہوے ہیں ، بہت سے دوسرے شہداء کے ساتھ ساتھ برہان وانی شہید کا نام اس خود رو اور خالصتاً مقامی مزاحمت کی علامت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ، لیکن اب کچھ عرصے سے ہمارا وکیل جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسٸلہ کشمیر کے بنیادی فریقین میں بھی شامل ہے, یعنی پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی مقامی مسلح جدوجہد کے بارے میں ایک نیا اورتشویشناک موقف دیکھنے میں آ رہا ہے , کہ جس کے مطابق ایک سے زاٸد بار میڈیا میں کسی ” سازش “ کا زکر اور اسے پیشگی طور پر ناکام بنانے کا دعویٰ کیا گیا , کہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے میں مجاہدین کے نام پر ” خود ساختہ “ ایجنٹوں کے زریعے بھارتی افواج پر حملے کٸیے جاٸیں گے اور پھر بھارت پلوامہ اور اوڑی حملے کی طرح الزام پاکستان پر لگا دے گا ,گویا بہ الفاظ دیگر اب مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کی طرف سے کوٸی عملی کوشش اب ” سازش “ تصور ہو گی ,یہاں دورہ امریکہ سے واپسی کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نیازی کے اس بیان کا حوالہ ضروری ہے کہ ”پاکستان اور آزاد کشمیر سے جو بھی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں اور مظلوم عوام کی عملی مدد کرنے کی کوشش کرے گا , وہ ان سے دشمنی کرے گا “۔

کیا اب یہی نہیں ہو رہا کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر کشمیری اقوام متحدہ میں اپنے تسلیم شدہ حق کے لٸیے کسی بھی طرح کوشش بھی نہیں کر سکتے , اگر وہ اپنے وطن میں ہی قابض اور غاصب بھارتی فوج کے خلاف کوٸی عملی کوشش کرتے ہیں تو اب ہماری نظر اور موقف کے مطابق اسے ”سازش “ سمجھا جاے گا ۔ پہلے تو اس پر سوال اٹھایا جانا چاہٸیے , کہ, کیا اب کشمیری اپنی ہی سرزمین پر قابض بھارت کے خلاف کسی بھی کارواٸی کے قابل بھی نہیں چھوڑے جا رہے ۔ کشمیریوں کی طرف سے بھارتی غاصبوں کے ناجاٸز اقدامات کے خلاف جاٸز رد عمل کو بھی اب پاکستان کی طرف سے ” سازش “ قرار دینا کشمیری حریت پسند عوام کی طرف سے, بھارت کے کشمیریوں کے خلاف غاصبانہ اور ظالمانہ اقدامات کی بالواستہ حمایت ہے ۔

کشمیری حریت پسند عوام یہ سمجھنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں , کہ یہ موقف ”صدر ٹرمپ “ کے دور میں دورہ امریکہ کے دوران, ہماری طرف سے امریکہ اور بھارت کو مسٸلہ کشمیر پر دی جانے والی ضمانت اور مفاہمت کا حصہ ہے ۔ اس شکست خوردانہ مفاہمت کی اصل تفصیلات تو شاید کبھی سامنے نہ آ سکیں, لیکن اس کے اثرات کشمیر پر روایتی موقف اور ان سے کٸیے گٸے وعدوں سے واضع انحراف کی شکل میں واضع طور پر سامنے آ رہے ہیں ۔
واپس کریں