دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
” مداری “ ( سندھی افسانہ)
ظفروانی
ظفروانی
مداری نے ایک ایسے ہی پائپ کو اپنا گھر بنا لیا تھا۔ مداری نے پائپ کو ایک طرف سے پتھر چن کر بند کرکے کمرے کی صورت دے لی تھی۔ دوسرے دہانے پر باڑ سی بنا کر چار دیواری کی صورت صحن بنا لیا تھا، جہا ں کونے میں تین اینٹوں والا چولھا تھا۔ چولھے کے پاس پڑے گندے برتنوں پر مکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ دُوسرے کونے میں لکڑی کا صندوق رکھا رہتا۔ رسّی کے ساتھ بندھابندر اسی صندوق پر اُٹھک بیٹھک کرتارہتا۔ دو گھاس پھوس کے تھڑے سے تھے، جن پر بوسیدہ دریاں بچھی رہتیں۔ گھر کے سامنے کیچڑ میں پتھر روڑے بکھرے رہتے جن پرسے قدم اُٹھانے سے چال کا آڑھا ترچھا ہو جانا ضروری تھا۔ یہاں ہر طرف ہر وقت مُردہ جانوروں کی بَد بو پھیلی رہتی۔ سامنے موجود گندگی کی ڈھیریوں پر بلّیاں اور کوّے یوں لڑتے رہتے جیسے یہاں کوئی خزانہ دفن ہو۔
اس پائپ میں ایک خستہ حال مداری اپنے بالکے اور تین سالہ بیٹے کے ساتھ رہائش پزیر ہوتا ہے ، بیوی یہیں ٹی بی کی بیماری سے مر جاتی ہے کہ اس جادوگر کے پاس اس کے علاج کے پیسے نہیں ہوتے ، لہزا وہ اپنے تین سال کے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ اپنے مجمع بازی کے کام پر لے جاتا ہے, اور کسی بھی جگہ ایک مجمع جمع کر کے کچھ چھوٹے موٹے جادو کے کرتب دکھاتا ہے، پھر وہ اپنا خاص جادو دکھاتا ہے کہ اپنے بارہ چودہ سال کے بالکے کی گردن ایک تیز دھار چاقو سے کاٹ کر اس پر چادر ڈال دیتا ہے ۔ چادر پر بالکے کے خون کے دھبے سے بھی بن جاتے ہیں ، پھر کچھ پڑھ کر بالکے کی چادر پڑی لاش کے گرد گھوم گھوم کر اپنی بانسری بجاتا ہے ' چادر اٹھاتا ہے تو بالکا بالکل زندہ نکل آتا ہے اس کا خون نکلنا بھی بند ہو چکا ہوتا ہے ، یہ دونوں جھک کر مجمع کو سلام کرتے ہیں اور لوگ تالیاں بجاتے ہوے انھیں چند سکے دے دیتے ہیں ۔
ایک روز اس کے بالکے کو آوارہ گردی کے الزام میں پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے ، جادوگر کو کئی روز سے بخار ہوتا ہے وہ بیماری اور بالکے کے نہ ہونے کی وجہ سے کام پر بھی نہیں جا سکتا ، بس اپنے پرانے پائپ والے گھر کے باہر بناے صحن میں نڈھال پڑا رہتا ہے ، اس کا تین سال کا معصوم بچہ کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ ابا اٹھتا کیوں نہیں ہے ، بالکا کدھر چلا گیا ہے ، وہ بھوک سے نڈھال ہو کر رو نے لگتا ہے, تو یہ جادوگر بےچین ہو کر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے تب اس کے منہہ سے خون کی قے نکلتی ہے ، اور وہ چکرا کر گر جاتا ہے اور اس کی جان نکل جاتی ہے ۔
چھوٹا بچہ یہ دیکھتا ہے تو اس کو ہلا جلا کر ، پکارتا ہے جب باپ نہیں بولتا تو اچانک اس بچے کو کچھ خیال آتا ہے وہ باپ کی جادو کے سامان کی میلی گھٹھری میں سے وہی خون کے دھبوں والی چادر نکالتا ہے اور اسے جادوگر کی لاش پر ڈال دیتا ہے ، پھر باپ کی طرح ہی منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے ہوے لاش کے گرد گھوم گھوم کر بانسری بجانے لگتا ہے ۔
( وہ بچہ اپنی معصومیت کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ اس طرح کرنے سے کیونکہ گردن کٹا بالکا دوبارہ زندہ اور ٹھیک ہو جاتا تھا اسی طرح یہ کرنے سے میرا باپ بھی زندہ اور ٹھیک ہو جاے گا )۔ (((یہ سندھی سے ترجمہ شدہ افسانہ میں نے کافی عرصہ قبل پڑھا تھا جس کا تاثر مجھ پر کئی دن تک شدت سے طاری رہا ، رات میموریز میں اس افسانے کا شروع کا کچھ حصہ سامنے آیا تو باقی اپنی یاداشت سے آپ قارئین کے لئیے دھرا دیا ۔ ظفر محمود وانی )))
واپس کریں