دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
روندی یاراں نوں، نال لے لے کے بھراواں دا
ظفروانی
ظفروانی
کچھ دوست مسلسل اپنے اس صدمے کا اظہار فرما رہے ہیں ، کہ 1948 میں بھارتی فوج کے پہنچنے سے قبل مظفرآباد کو کیوں ڈوگرہ فوج سے آزاد کروا لیا گیا تھا ، بھارتی فوج کیوں مظفراباد اور ازاد کشمیر پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئی تھی ، ان حضرات کے خیال اور اظہار کے مطابق اس " ظلم عظیم " سے کشمیر کی " وحدت " اور ڈوگرہ مہاراجہ کی وراثت کو تقسیم کر دیا گیا ، اس بارے میں یہ حضرات اپنی تنقید کا تمام تر رخ ریاست میں قبائلیوں کی امد اور اس کے کافی بعد میں آنے والی ریگولر پاکستانی فوج اور پاکستان کی طرف ہی رکھتے ہیں ۔
اکستان کی باقائدہ فوج کا جنرل نزیر کی زیر قیادت نمبر 4 ڈویثن تب تعینات کیا گیا جب بھارتی فوج کے ایڈوانس اور قبائلیوں کی پسپائی کی وجہ سے مظفراباد خطرے میں پڑ چکا تھا ۔ تب ہی تل پترا اور ٹیٹوال سیکٹر میں چونج پہاڑی( فیچر 72229) قبضہ کر کے مظفر اباد کو بھارتی فوج کے ایڈوانس کرتے تین برگیڈ کے حملے سے بچایا جا سکا تھا ۔ بھارتی برگیڈز، جن میں سے ایک برگیڈ دریاے جہلم کے ساتھ مرکزی سرینگر شاہراہ پر ایڈاوانس کر رہا تھا ، دوسرا دریا کے پار سے پھیلاو میں ایڈوانس کر رہا تھا اور تیسرا لولاب کی طرف سے ٹیٹوال نوسیری کی طرف ایڈوانس میں تھا ۔ یہ تینوں برگیڈ مشہور بھارتی جرنیل" تھمایا " کے آٹھ برگیڈز پر مشتمل ڈویثن کا حصہ تھے , جس ڈویثن کے ہی دو برگیڈ درہ تراگبل گریز کی طرف ایڈوانس کر رہے تھے ، اور باقی تین برگیڈ وادی میں ریزرو کے طور پر رکھے گئے تھے ۔
مظفرآباد پر بھارتی قبضہ نہ کر سکنے سے کچھ " عناصر " کو شدید مایوسی تو ہوئی تھی جس کا اظہار ہمیں آج چھیتر 76 سال گزرنے کے بعد بھی ان کی یا ان کی باقیات کی طرف سے دیکھنے میں اتا ہے ۔ یہ انتہائی رقت کے ساتھ مظفراباد میں قبائلی حملہ اوروں کے ہاتھوں مارے جانے والے ہندو اور سکھوں کا زکر کریں گے ، زندہ سلامت بھارت پہنچ جانے والی اس وقت کے مظفراباد کے ڈی سی مہتہ کی بیوہ " کرشنا مہتہ " کے نوحے پڑھیں گے بلکہ اسی " ازاد کشمیر " میں اس کے نوحے کے اور سوگ کے طور پر پرسرار فنڈنگ سے ایک کتاب تک چھپوائی جاتی ہے ، لیکن مظفرآباد پر تو " بیرونی حملہ آوروں" نے ظلم کیا لیکن مہاراجہ نے اس کا بدلہ جموں میں اپنی پرجا کے نہتے ، پرامن اور بےگناہ مسلمانوں سے کیوں لیا ، کیا مظفرآباد کے ڈیڑھ دو سو ہندووں کو جموں کے مسلمانوں نے قتل کیا تھا ؟ جو ان سے بدلہ لیا گیا ۔چند سو ہندووں کے قتل کے جواب میں منظم طور پر لاکھوں ریاستی مسلم باشندے قتل ، کر دئیے گئے ، ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی ان کو اغواء کیا گیا ، لاکھوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دیا گیا ، اج جب یہ دونوں واقعات مظفرآباد میں غیر مسلموں کا قتل، اور جموں کا منظم قتل عام دونوں ماضی بن چکے ہیں ، لیکن آج بھی کچھ دوست زندہ سلامت بچ کر بھارت پہنچ جانے والی " کرشنا مہتہ " کے سوگ میں پھوڑی بچھاے بیٹھے ہیں ، اور بین ڈالتے ہیں لیکن ان کو اب بھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ مہاراجہ کی طرف سے جموں میں اپنی ہی پرجا کے بےگناہ ، پرامن ، نہتے مسلمانوں کے قتل عام اور تباہی وبربادی کی مزمت کیا ، رسمی طور پر ہی سہی ، زکر ہی کر دیں ، آج چھیتر (76) برس گزر جانے کے بعد بھی جب یہ دونوں افسوسناک واقعات یکساں طور پر ماضی کا حصہ بن کر ہمارے سامنے ہیں ، یہ حضرات اب بھی "پہلے اور بعد " کی تاویلات کے زریعے مہاراجہ کی طرف سے قبائلی حملہ آوروں کا بدلہ اپنی رعایا سے لینے کا " جواز " پیش کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ، یہ آج بھی قبائلی حملہ اوروں ، ڈوگرہ فوج اور پھر بھارتی فوج کے مقابلے میں مزاحمت کرنے والے ریاست کے مجاہدین اور پھر پاکستانی فوج پر تنقید کرتے تو دکھائی دیتے ہیں ، لیکن اپ غلطی سے بھی کبھی ان کے منہ یا قلم سے اج بھی بھارتی کردار اور لاکھوں کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج کا زکر یا مزمت نہیں سنیں گے ۔ زرا مشہور بھارتی جرنیل ، جرنل تھمایا کی کتاب ،" تھمایا آف انڈیا "۔ اور کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے سب سے پہلے اترنے والے بھارتی جرنیل جو اس وقت شاید کرنل تھا ، جنرل ایل پی سین کی کتاب " سلنڈر واز تھریڈ " کا بھی مطالعہ فرما لیجئیے، جو لکھتے ہیں کہ کشمیر میں فوجیں اتارنے کے لئیے بھارتی فوج کی لارڈ ماونٹ بیٹن کے زیرنگرانی تیاری کافی عرصہ سے جاری تھی ، مہاراجہ نے پاکستان کو دھوکہ دینے کے لئیے " سٹینڈ سٹل معائدہ کیا دوسری طرف وہ بھارتی لیڈرز کے ساتھ کشمیر میں افواج بھجوانے کے لئیے ساز باز اور رابطوں میں مصروف تھا ۔ تاکہ بھارت کو براہ راست کشمیر کے ساتھ قابل عمل راستہ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا وقت مل جاے ، اسی سلسلے میں بھارتی خفیہ ادارے کا ایک آفیسر " راج گرو " کے نام اور پہچان سے مہاراجہ کے محل میں مہارانی تارہ دیوی کا " مہمان " بنا ہوا تھا ، وہ بھی اسی ضمن میں کام اور پیش رفت کی نگرانی کر رہا تھا ، مہاراجہ کی اسی ساز باز اور بھارت اور لارڈ ماونٹ بیٹن سے رابطوں کا علم جب پاکستان کو ہوا تو انہوں نے پہلے فوج کے کمانڈر جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا ، لیکن اس نے بہانہ بنایا کہ وہ مشترکہ سپریم کمانڈر " آکنلیک " کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتا جبکہ دوسری طرف کشمیر میں بھارتی فوج اتارنے کے اپریشن کا انتظام ، نگرانی اور اس آپریشن کی قیادت خود مانٹ بیٹن کر رہا تھا ۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کے کردار ، عمل اور رجہان کاجائزہ لیں تو اس کا زاتی جھکاو بھارت اور نہرو کی طرف واضع دکھائی دیتا ہے ، جس میں بڑا کردار اس کی بیگم " ایڈونا مانٹ بیٹن " کے پنڈت نہرو کے ساتھ قریبی زاتی تعلق کو بھی جاتا ہے ۔ کشمیر میں بھارتی فوج اتارنے کے آپریشن کو عمل میں لانے کے لئیے سول اور فوجی ایک سو طیارے مختض کئیے گئے تھے ، جب بھارت میں وہاں کی فوجی قیادت اور لارڈ ماونٹ بیٹن اس آپریشن کے لئیے ان طیاروں کا انتظام کر رہے تھے ، تو سب سے پہلے یہی اطلاع پاکستان کی سیاسی قیادت کو ملی تھی ، جو یہ سمجھ کر کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے پاکستان سے الحاق کے منتظر تھے کہ کشمیر تک پہنچنے کے لئیے بھارت کے پاس کوئی قابل عمل زمینی راستہ ہی نہیں ہے ، جبکہ پاکستان آسان ترین اور ہر موسم میں کھلے رہنے والے راستوں سے کشمیر سے جڑا ہوا ہے ، اور کشمیر میں ڈاک ، تار سے لے کر عام اشیاء ضروریہ کی تمام سپلائی کا پہلے سے ہی دارومدار پاکستان پر مشتمل علاقوں راولپنڈی ، سیالکوٹ وغیرہ کی طرف سے ہی تھا ، اسی وجہ سے بھی مہاراجہ کی طرف سے " سٹینڈ سٹل معائدے " کے زریعے رسل و رسائل اور سپلائی کے اس سلسلے کو جاری رکھا گیا تھا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا متبادل آپشن موجود ہی نہ تھا ۔
پاکستان کی فوج کے اس وقت کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کے جموں و کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کر دینے کے بعد ہی انتہائی مجبوری کے عالم میں مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے ایک کمانڈر ریٹائرڈ میجر "خورشید انور " کے زیر کمان قبائلی کشمیر میں بھیجنے پڑے تھے ۔اس کے علاوہ فوج کے مجلہ " ہلال " کے بیس سال تک۔ ایڈیٹر رہنے والے محقق " میجر امیر افضل " کی کتاب " پاکستان کی کہانی " کا بھی مطالعہ فرمائیے ، جس میں انہوں نے بےلاگ اور غیر جانبدارانہ طور پر ان تمام واقعات کا معتبر حوالہ جات کے ساتھ زکر فرمایا ہے ۔ اس وقت کی صورتحال پر کچھ تبصرہ کرنے اور اس وقت کی حقیقی اور پس پردہ صورتحال کا درست اندازہ کرنے کے لئیے اور کوئی راے قائم کرنے سے قبل اس وقت کے ان واقعات میں خود شامل ان اصحاب کی اسی موضوع کے بارے میں تحریر کردہ کتب کا اور دیگر ریکارڈ کا مطالعہ ، ضروری ہے ۔
تاریخ کے اس ریکارڈ کا مطالعہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے، جب خصوصا آزاد کشمیر میں کچھ بھارتی اداروں کی طرف سے کچھ لوگ صرف اسی وجہ سے مامور کئیے گئے ہیں کہ وہ یہاں کی نوجوان نسل کو غلط اور بھارتی مفادات کے مطابق تاریخ سے روشناس کروائیں ، اور ان میں، پاکستان اور کشمیر کے پاکستان سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والوں کے خلاف نفرت اور تعصب پیدا کریں ۔
یہ حضرات اور عناصر ، جن کو یہ کام کرنے کی یہاں کھلی چھوٹ ہے ، پھر بھی تسلیم نہیں کرتے کہ یہ خطہ واقعی بہت ہی " آزاد" کشمیر ہے ، ہوتے یہ مقبوضہ کشمیر میں اور وہاں بھارت کے مفادات کے خلاف یا اپنے عالمی طور پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے بارے میں بات کرتے تو ان کے گھر والے تیس تیس سال تک ان کی شکلیں دیکھنے کو ترس جاتے ، جیسے مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں کشمیری صرف اپنے جرم بےگناہی اور نظریہ کی پاداش میں دہائیوں سے بھارتی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں ۔
یہ حضرات اپنی اور کشمیر کی تاریخ سے بےخبر یہاں کی نوجوان نسل کو ڈوگرہ مہاراجہ " ہری سنگھ " کی اس " وراثت کے حصول کے خواب دکھاتے ہیں، جس وراثت سے مہاراجہ کے جائز وارث " ڈاکٹر کرن سنگھ " تک دستبردار ہوچکے ہیں ، اور شروع سے ہی بھارت کی پارلیمان کا حصہ بن جانے پر اکتفاء فرما چکے ہیں ، اب پھر سے " سلطنت انگلیشیہ کے لارڈ گف کے زیر کمان دستوں کے کرنل لارنس ریزیڈنٹ اور لیفٹینٹ ایڈورڈ بارہ ہزار انگریزی فوج اور بھاری توپخانہ کے ساتھ کشمیر آئیں گے ، اور ان " وارثوں کو ویسے ہی وادی کشمیر کا قبضہ دلائیں گے جیسے انہوں نے کشمیر انگریزوں سے " خریدنے " والے ، گلاب سنگھ کو دلایا تھا ، اسی طرح ڈوگرہ جرنیل آنجہانی زور آور سنگھ کی بھی پھر سے ضرورت پڑے گی ، جو تبت خورد یعنی بلتستان سے فوج سمیت داخل ہو کر مقامی غداروں کی مدد سے ان علاقوں کے معززین کے ہاتھ پاوں کاٹ کر ابلتے تیل سے داغ کر ان کو تڑپتا میدان میں پھینک دے ، غیور معززین کی عصمت دری اور قتل عام کرے ۔ تاکہ دوبارہ سے ڈوگرہ گلاب سنگھ کی ریاست " جموں و کشمیر و تبتہا " کا قیام ، احیاء ، عمل میں لایا جا سکے اور اس کے راج سنگھاسن پر اس گروہ خوش " فہمانان و بدگمانان " کو بٹھایا جا سکے ۔ان حضرات کی نسبت خود کو اعلانیہ بھارتی ترجمان اور نمائندہ قرار دینے والے " امجد ایوب مرزا ، اور "ارشد چوہدری "۔ زیادہ "سچے" اور " باضمیر " ہیں کہ اپنی اصل وابستگی کو چھپاتے اور منافقت نہیں کرتے ، جس کے لئیے کام اور اس کےنمائندے کا کردار ادا کرتے ہیں تو علی الاعلان کرتے ہیں ۔
واپس کریں