دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دریاے راوی کی مکمل بندش، اور ہماری بےعملی و خام خیالی
ظفروانی
ظفروانی
حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے دریاے راوی پر " شاہ پور کنڈی ڈیم تعمیر کر لیا ہے، جس کی تعمیر سے دریاے راوی میں آنے والے پانی کی معمولی مقدار بھی پاکستان کی طرف آنا بند ہو گئی ہے ۔ ہمیں ان حالات و واقعات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئیے، جن کی وجہ سے پاکستان بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا ، لیاقت علی خان کے دور کے آخر سے ہی بھارت مادھو پور سے نکلنے والی نہریں ، بھارت میں واقع ہیڈ ورکس سے بند کر کے پاکستان کے لئیے مشکل صورتحال پیدا کر دیا کرتا تھا، ایسا اس نے بار بار کیا ، اور دیگر کئی نہروں کو بھی بوقت ضرورت بند کر کے ہمیں مشکل سے دوچار کر دیا ، کیونکہ ان کے ہیڈ ورکس بھارت میں قائم تھے، یہی نہیں بلکہ پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو مکمل طور پر روک کر پاکستان کو بنجر بنا دینے کی دھمکیاں بھی بھارت کی قیادت کی طرف سے دی جانے لگیں ۔ پاکستان ظاہری بلند و بانگ نعروں کے باوجود بھارت سے جنگ کی پوزیشن میں بالکل بھی نہ تھا، لہزا اس کو اس مجبوری اور کمزوری کے عالم میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں سے اس معاملے میں مدد اور مداخلت کی درخواست کرنی پڑی ، اس پر امریکہ نے ہی ورلڈ بینک کو اس معاملے میں ثالث مقرر کیا ، پھر بھی ان سب حالات اور کمزوریوں کے باوجود اگر پاکستان میں اس وقت ایوب خان کے بجاے کوئی بااعتماد جمہوری، محب وطن سیاسی حکومت اور قیادت ہوتی، تو وہ لازما پاکستان کے لئیے اس سے بہت بہتر حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ، جو کچھ ہمیں ملا ۔ اسی لئیے اعتماد کا شدید فقدان ہمیں ان مزاکرات کے دوران فوجی آمر ایوب خان کی طرف سے نظر آیا ۔ سازشوں سے اقتدار پر قابض ہوے ایوب خان کے اعتماد کے فقدان اور عالمی طاقتوں کے سامنے کمزور اخلاقی پوزیشن کی وجہ سے ہمیں اس معاہدے کی اس صورت کو قبول کرنا پڑا، جو آج ہمارے لئیے طرح طرح سے مشکلات اور نقصان کا باعث بن رہی ہے۔حالانکہ جس طرح سندھ طاس معاہدے میں جہلم ، چناب اور سندھ پر بھارت کا " حق استعمال " تسلیم کیا گیا تھا ، اسی طرح ان جنوبی دریاوں راوی بیاس اور ستلج پر بھی پاکستان کا " حق استعمال " کا مضبوط قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے ۔ کیونکہ ثالث کی نگرانی اور ضمانت پر ہوا کوئی بھی معاہدہ فریقین کے لئیے یکساں نوعیت کی سہولیات اور اختیارات پر ہی منحصر ہونا لازمی ہوتا ہے ، اور تب ہی اس معاہدے کو منصفانہ معاہدہ کہا جا سکتا ہے ، دونوں ممالک کے درمیان عالمی بینک کی نگرانی اور گارنٹی پر ہوا یہ آبی معاہدہ جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگوں کے باوجود بدستور قائم رہا ، یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معاہدہ ہماری نسبت بھارت کے مفاد میں زیادہ جھکاو رکھتا ہے ۔ جہاں ہر جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ہوے سابقہ دیگر تمام معاہدے ختم ہو کر نئے معاہدے کئیے جاتے رہے، جیسے معاہدہ شملہ نے معاہدہ تاشقند کی جگہ لے لی ، دیگر کئی امور پر ہوے باہمی معاہدے بھی اپنی شکل اور نوعیت تبدیل کرتے رہے ، جیسا کہ دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ممالک میں آنے جانے کی سہولت دینے کے لئیے کئیے گئے معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی " سمجھوتہ ایکسپریس " کی بھارت کی طرف سے بندش کا معاملہ ہے ۔ ہر معاہدہ دو طرفہ نوعیت کا ہی ہوتا ہے، اسی طرح سندھ طاس معاہدہ میں بھارت نے جس طرح پاکستان کے حصے میں آنے والے شمالی دریاؤں یعنی سندھ ، جہلم اور چناب پر اپنے " حق استعمال" کی گنجائش رکھوائی اور فریقین نے تسلیم کی تھی ، اسی طرح اسی معائدے کی یکسانیت، برابری اور انصاف کے اصول کے تحت بھارت اپنے حصے میں آنے والے تین جنوبی دریاوں ستلج ، راوی اور بیاس میں بھی کم از کم بیس فی صد پانی چھوڑنے کا پابند ہے ، کیونکہ ان دریاوں کی بھارت کی طرف سے مکمل بندش کی وجہ سے ان دریاؤں کے زیریں علاقوں میں آباد باشندوں پر شدید منفی اور تباہ کن اثرات مرتب ہوے ہیں، جو خود اپنی جگہ ایک انسانی اور تہزیبی المیہ ہے ۔لیکن بھارت "اپ سٹریم" پر واقع ہونے اور اپنی طاقت کے بل پر اس اصول اور معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا آیا ہے ۔ بلکہ اب وہ نیمو باز ڈیم کی تعمیر اور ٹنل کے زریعے دریاے سندھ کا رخ سپتی ہماچل کی طرف موڑ دینے کے پراجکٹ پر بھی کام کر رہا ہے ، اس کے علاوہ اس کی طرف سے دریاے چناب اور دریاے جہلم پر بھی مختلف قسم کے کئی " ریور ٹریننگ ورکس پر مشتمل منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ، جن کی تکمیل سے بھارت کی ان دریاوں کے پانی پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت میں بھی ہمارے لئیے تباہ کن قسم کا اضافہ عمل میں آ جاے گا ۔ ہماری طرف ایک تو قومی اور حکومتی سطح پر اس مسئلے کی ، اہمیت ، شدت اور سنجیدگی کا احساس نہیں کیا جا رہا، دوسرے ہماری طرف سے ان مزاکرات میں حصہ لینے والے عہدیدار اور انجینئیرز واضع طور پر " نالائق اور نااہل ہیں، کہ وہ مزاکرات کے دوران پاکستان کے مفاد کے مطابق موقف تشکیل دینے اس کے لئیے تکنیکی دلائل تیار کرنے میں بھارتی انجینئیرز کے مقابلے میں ہمیشہ بری طرح ناکام ثابت ہوے ہیں ، بلکہ کبھی کبھی تو حیرت انگیز طور پر میڈیا میں بھارتی موقف کی ہی تصدیق کرتے دکھائی دئیے ہیں ۔اس کا عملی ثبوت عالمی بینک کے زیر نگرانی ہوے بگلیار اور نیلم جہلم منصوبے کے علاوہ ، دریاے جہلم پر تعمیر کئیے جانے والے تلبل نیویگیشن پراجیکٹ پر مذاکرات کے دوران دیکھنے میں آیا ، جب ہر بار عالمی بینک نے بھارت کے ہی موقف کو پزیرائی بخشی ۔ بھارت ہمارے وفود کو ہر بار انتہائی عیاری سے، بھارت کے کسی خاص قدم یا خلاف ورزی پر ہی بحث تک محدود رکھنے میں کامیاب رہتا ہے ، یعنی یہ صرف " رد عمل " کے طور پر ہی صرف اسی معاملے پر ہی اپنا موقف پیش کرنے کو ہی اپنی کوئی کامیابی سمجھ لیتے ہیں، اور بھارتی حکام دل ہی دل میں ان کی بےوقوفی پر ہنستے ہوں گے ، وہ ان وفود کی" پرتعیش مہمان داری " کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے استعمال کرتے ہیں ، کبھی صرف اسی معاملے کی تحقیقات ہو جائیں تو کئی " رنگین و مخمور داستانیں " سامنے آئیں گی ۔ افسوس ہوتا ہے کہ بھارت اپنے مقاصد اور مفاد کے لئیے غلط موقف کے اپنے بدصورت چہرے کو بھی کیسے سنوار دیتا ہے ، اور ایک بدنصیب ہم ہیں ، جو اپنے درست اور حق پر مبنی " خوبصورت چہرے " کو بھی بگاڑ بیٹھے ہیں ۔
واپس کریں