ظفروانی
آزاد کشمیر کے ممتاز صحافی برادرم دانش ارشاد نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں معائدہ کراچی کو "حکومت آزاد کشمیر " کے" اختیارات" میں کمی یا خاتمے کا باعث بتایا ہے ، اور حال ہی میں حکومت ازاد کشمیر کے کوئی سے تین وزراء کی اس موضوع پر کسی پریس کانفرنس کا زکر بھی فرمایا ہے ، دیکھنے میں آیا ہے کہ آزاد کشمیر کی نوجوان نسل تک یہی تاثر پہنچ رہا ہے یا پہنچایا جا رہا ہے کہ گویا معائدہ کراچی آزاد کشمیر کو حاصل اختیارات میں کمی کا باعث بنا ، اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاید آزاد کشمیر اس سے قبل کوئی بہت زیادہ اختیارات کی حامل " آزاد حکومت " تھی . اس ضمن میں راقم نے ان کی خدمت میں اپنا موقف پیش کیا جو قارئین کی اس موضوع پر دلچسپی اور کسی حد تک ریکارڈ کی درستگی کے لئیے پیش خدمت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پرمقامی قیادت کا نہ تو مقبوضہ کشمیر اورمسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنے مقام اور ممکن مراعات سے اگے کچھ کچھ کردار تھا نہ درحقیقت ان کو کوئی دلچسپی تھی سواے اس کے کہ مسئلہ کشمیر سے " علامتی " طور پر وابستگی کے رسمی اظہار کے زریعے اپنے اور اپنے علاقہ کے علامتی نمائندہ کردار کے طور پر اپنے اور علاقے کے لئیے زیادہ سے زیادہ مراعات کاحصول ممکن بنایا جا سکے ، زرا بھونڈے طریقے سے ہی سہی لیکن یہی سوچ اور ایپروچ اب بھی مقامی سیاست اور پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے ۔آپ کیا آزاد کشمیر کے وزراء کو " حکومت " سمجھتے ہیں ؟ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی یہ انتظام " حکومت " نہیں بلکہ " لوکل اتھارٹی " ہے جس کے بنیادی مقاصد اور دائرہ عمل کی حدود کا بھی تعین کر دیا گیا ہے ، یہ تو پاکستان کی پالیسی اور عالمی طور پر موقف ہے ، جس نے بوجوہ اس غبارے میں ہوا بھری ہے ، اور اب اسی ہوا کی وجہ سے یہ غبارہ سمجھ رہا ہے کہ وہ " پرواز " کے قابل ہو گیا ہے ! اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اور ان کے مطابق " معائدہ کراچی " کی کیا اہمیت اور اوقات ہے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ یہ تو اس وقت کی آزاد کشمیر کی قیادت نے یہاں کی مقامی آبادی کے لئیے زیادہ سے زیادہ مفادات ، مراعات اور سہولیات کو ممکن بنانے کے لئیے معائدہ کراچی کو عمل میں لایا تھا ، کیونکہ ان حالات میں وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ " کسی " نے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے عوام نے اپنا اختیار ان کے حوالے کرنا ہے ، لہزا انہوں نے اپنے ہی علاقے کے انتظام میں ممکن حد تک، زیادہ سے زیادہ اختیار کو ہی ترجیع دی ۔ پانچ ہزار مربع میل کے علاقےمیں جیسی تیسی ایک حکومت ، سپریم کورٹ ، اسمبلی و دیگر حکومتی مراعات اس فیصلے کا نتیجہ ہیں ، ہمیں پسند آے یا نہ آے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت یہاں کی " بزرگ مقامی قیادت " نے مقامی ممکن مراعات " کو ترجیع دی تھی ۔ جس کا باعث معائدہ کراچی تھا ۔
جہاں تک ازاد کشمیر میں سیاسی انحطاط کا معاملہ ہے ، اس کا باعث یہاں کی مقامی قیادت کے سیاسی اور علمی ، معیار اور قد کو اس کی وجہ سمجھیں ۔۔ زرا کبھی ایک گھنٹہ ان کے نزدیک بیٹھ کر ان کی باتیں سنیں ، میرا خیال ہے کہ ان کو قیادت کہتے ہوے بھی پھر اپ کو شرمندگی ہو گی ، یہ قیادت نہیں بلکہ " نمائندے ہیں اپنے اپنے قبیلے ، برادری اور طبقے کے ، جیسے جسٹس اے آر کیانی نے کبھی ایک بوڑھی عورت کوکہا تھا کہ اماں تجھے کس نے کہہ دیا کہ یہ " عدالت" ہے ، یہ عدالت نہیں بلکہ " کچہری " ہے ، تو یہ حضرات بھی قیادت نہیں بلکہ " نمائندے " ہیں ۔۔اسی ضمن میں اپنا ایک تجربہ بیان کروں گا جب میں کبھی کیرن ریسٹ ہاوس میں منعقدہ ایک دعوت کے موقع پر ازاد کشمیر کے وزراء کرام ، مشیران کے نزدیک جا بیٹھا کہ وہ کیا اور کن موضوعات پر باتیں کرتے ہیں ۔ اپ بھی میری طرح حیران ہوں گے یہ سن کر کہ وہ سب کسی " " انور " کا بار بار زکر کر رہے تھے ساتھ لندن کی کسی جوتوں کی دکان کا زکر ہو رہا تھا بعد میں معلوم ہوا کہ " انور " صاحب کوئی اعلی درجے کے مہنگے درزی ہیں ایک بتاتا کہ میں نے یہ واسکوٹ " انور "سے سلوائی ہے اس پر دوسرے صاحب فرماتے میں بھی ہمیشہ انور سے ہی کپڑے سلواتا ہوں ، اسی طرح ایک صاحب اپنے جوتے کی طرف توجہ دلا رہے تھے ، کہ یہ لندن کی فلاں دکان سے لیا ہے اس پر مزید دو تین بولے ہم بھی وہیں سے جوتےخریدتے ہیں ۔ میں کھانا لگنے تک کوئی سوا گھنٹہ ان کے نزدیک بیٹھ کر ان کی باتیں سنتا رہا تو مقبوضہ کیرن کے عین سامنے بیٹھے ان وزراے حکومت کے موضوع گفتگو میں غلطی سے بھی مقبوضہ کشمیر ، مسئلہ کشمیر وہاں کے عوام ، کا بالکل کوئی رسمی زکر تک نہ تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میں اپنے والد اور اپنے چاچا جی خواجہ امین مختار کے پاس یا ان کے ہمراہ مختلف سیاسی شخصیات سےملا کرتا تو ایسے تاریخی ، اور سیاسی موضوعات اوران کی تفصیل سننے کو ملتی کہ ان اصحاب کی محفل میں ایک گھنٹہ بیٹھنا ایک برس کے مطالعے سے زیادہ معلومات اور بصیرت افروز ہوا کرتا تھا ، اس وقت کے صحافی ہی دیکھ لیجئیے ۔
میرے والدخواجہ عبدالصمد وانی ، میر عبدالعزیز صاحب ، گلزار احمد فدا صاحب ، جی ایم مفتی صاحب ، عبدالحفیظ سالب صاحب ، رشید ملک صاحب ، فیاض عباسی صاحب ، محمود آزاد صاحب ، کس کس کا نام گنواوں ایک پھولوں کا دبستان تھا جس کے قریب بیٹھنے والا بھی ان کی خوشبو سے مہک اٹھتا ، اج کا موازنہ خود فرما لیجیے ، یہی حال سیاسی قیادت کا بھی ہے ۔ جیسا دودھ ویسا ہی اس کا مکھن ۔ جیسی عوام کی ترجیہات ویسے ہی ان کے منتخب نمائندے اور ان کا معیار ۔۔۔۔ اب کیسا گلہ کیسا شکوہ ۔۔
زرا زمینی اور عملی طور طور پر تحقیق کر لیجئیے کہ وہ کون سے فرضی اختیارات تھے جو اس معائدے سے قبل ازاد کشمیرکے عوام کو حاصل تھے ، پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ "منسٹری اف کشمیر افئیرز " نے مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں ازاد کشمیر کی " نمائندہ " پوزیشن کو " اجاگر اور ہائی لائٹ " کرنے کے لئیے ان فرضی اختیارات کا ڈنڈورا پیٹا ، تاکہ عالمی فورمز پر بھارت کے سامنے کوئی موقف تشکیل دیا جاسکے ۔ جس بدنام زمانہ بات کی بازگشت کبھی کبھار سنائی دیتی ہے کہ منسٹری کے ڈپٹی سیکریٹری کا استقبال بھی " کوہالہ " جا کر کیا جاتا تھا وہ بھی اس معائدے سے قبل کا ہی زمانہ تھا ، یہ سب اس وقت کی سیاست اور ڈپلومیسی کے وہ پہلو ہیں ، جن کو بوجوہ ابھی تک سامنے نہیں لایا گیا نہ ائندہ ان کے سامنے لاے جانے کا کوئی امکان ہے لہزا ، کچھ " سادہ لوح خوش فہم " اب اپنی مرضی اور پرسیپشن کے مطابق مطلب اخز کر رہے ہیں ۔ حقائق اور حالات بالکل ویسےنہ تھے جن کی بوجوہ ظاہری طور پر تشہیر کی جاتی ہے ۔ سب کی طرف سےبشمول ازادکشمیرکی اس وقت کی قیادت ، اس وقت کی حکومت پاکستان کی پالیسی ، سیاسی حکمت عملی ، اور موقف اور سب سے بڑھ کر حقیقت ، زمینی صورتحال اور اصل اختیار ۔اعلامیوں اور عمل درامد اور دراصل دستیاب اختیارات میں بہت فرق ہوا کرتا ہے اور یہاں بھی تھا ۔جہاں دستیاب اختیارات ، مراعات ، کو " فریقین یعنی ازاد کشمیر کی اس وقت کی مقامی قیادت اور مقتدرہ نے " معائدہ کراچی کی شکل میں خوش اسلوبی سے اپس میں بانٹ لیا تھا ، اس معائدے میں نہ تومقبوضہ کشمیر کے عوام کہیں یا کوئی ترجیع تھے نہ ہی مسئلہ کشمیر ، بلکہ مسئلہ کشمیر پر عالمی فورمز پر رسمی یا غیر رسمی نمائندگی کے حق تک کو آزاد کشمیر کی "بابصیرت اور دور اندیش " مقامی قیادت نے "مقتدرہ" کو " آوٹ سورس" کر دیا۔
واپس کریں