دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نازک وقت کا تقاضہ ، صلاحیت اور بقاء کا سوال
ظفروانی
ظفروانی
ایک بات اپنے زھن میں باکل واضع فرما لیجئیے کہ دنیا میں کسی اخلاقیات اور انصاف کا کوئی وجود موجود نہیں ہے ، ابتداے آفرینش سے جو قانون سب سے زیادہ مضبوط اور منطقی ثابت ہے تو وہ بدقسمتی سے " طاقت کا قانون " ہے ، یہ حقیقت ہزاروں سینکڑوں سال قبل بھی درست تھی، اور آج بھی درست اور مستعمل ہے ، یووال نوح ہراری اپنی مشہور زمانہ کتاب " سیپئنز " میں ایک عجیب بات تحریر فرماتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں لوگ زیادہ شکار ، اچھی زرخیز زمینوں ، وسائل کی لوٹ مار ، غلام بنانے جیسے مقاصد سے کمزور قبیلوں پر حملے کر کے ان کو ہلاک کر دیا کرتے اور ان کی زمینوں املاک وغیرہ پر قبضہ کر لیا کرتے ، جن پر حملہ کیا جاتا وہ بھی اپنی پوری طاقت سے ان کا مقابلہ کرتے ، بہت سا خون بہتا اور بالاخر ایک فریق کو فتح نصیب ہوتی اور دوسرا فریق تباہ و برباد ہو کر تاریخ کی دھندلی راہوں میں معدوم ہو جایا کرتا ، یووال نوح حراری نے کچھ معیاروں کے مطابق اس طرح ہلاک اور معدوم ہو جانے والی انسانی نسلوں کی کل انسانی ابادی میں سے فی صد شرح نکالی ہے ، اور پھر اس شرح کا اج کے " اعلی اخلاقیات ، بہترین تہزیب و ثقافت، علوم و فنون سے مزین جدید دور میں باہمی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے شرح ہلاکت کا پرانے دور کی شرح ہلاکت سے موازنہ کیا تو یہ دہشتناک اور عجیب بات سامنے آئی کہ باہمی جنگوں ، لڑائیوں میں انسانی ہلاکت اور بربادی کی " شرح " بالکل اتنی ہی ہے جتنی قبل از تمدن کے وحشیانہ دور میں ہوا کرتی تھی ، گویا ، اخلاقیات ، تہزیب ، قانون ، ضوابط دراصل صرف ایک ڈھکوسلہ ہیں ہم آج بھی وہی خونخوار نسل ہیں جو جس علاقے میں چلی جاتی وہاں ہزاروں لاکھوں سال سے آباد جانوروں کی نسلیں تک معدوم کر دیا کرتی ، دوسری انسانی نسلوں تک کو معاف نہ کیا جاتا اور موقع ملنے پر ان کا بھی بےرحمی سے صفایا کر دیا جاتا ، اسی ضمن میں ہزاروں برس تک انسانی نسل کے ادم خوری تک کے شواہد بھی ملتے ہیں ۔ اج بھی بنیادی طور پر یہ "سیپئن" وہی درندہ ہے جو ٹیکنالوجی ، ایجاد ، وسائل اور اپنی غالب آ جانے والی ، تباہ و برباد کر دینے والی ، لوٹ لینے والی فطری عادتوں کی تکمیل میں ان جدید الات ، ایجادات اور معلومات کو پوری بےرحمی کے ساتھ استعمال کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔
بات متنازعہ ہے ، اور کچھ احباب کو یہ بات پسند بھی نہیں آے گی ، لیکن میرا موقف یہ ہے کہ جب اسرائیل نے پیجر اور سیل فون دھماکوں سے اپنی طاقت اور خطرناک ٹیکنالوجی کا اظہار کیا تھا ، اور اسرائیل کی مدد میں امریکی عزائم بھی واضع ہیں کہ وہ اسرائیل کی مدد میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ، تو فلسطینی قیادت کو فوری طور پر حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوے ، یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دینا۔ چاہئیے تھا ، اس طرح اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف مسلح کاروائیوں کا جواز ہی باقی نہ رہتا کیونکہ ایک فریق جو لڑنا ہی نہیں چاہتا اس پر یکطرفہ طور ہر بمباری اورمسلح حملے کس طرح کئیے جانے ممکن تھے ، اگر اسرائیل پھر بھی ایسا کرتا تو ساری دنیا کی توجہ اس کی اس جارحیت کی طرف مبزول ہو جاتی ، لیکن کیا یہ گیا کہ طاقت اورصلاحیت کے اتنے واضع اور خطرناک ، بلکہ تباہ کن فرق کے باوجود اسرائیلی بمباری کے جواب میں اکا دکا راکٹوں اور میزائلوں سے حملے کئیے جاتے رہے جو اسرائیل میں نصب امریکی اور اسرائیلی میزائل شکن نظام کی وجہ سے اسرائیل کو کوئی بھی نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ، اب بھی ایران کی طرف سے وہی کیا گیا جو اسرائیل اور امریکہ چاہتے تھے کہ ایران کسی مسلح کاروائی کے زریعے اپنا رد عمل ظاہر کرے اورجواب میں اس پر کسی بھی طرح سے خطرناک حملہ کیا جا سکے اور اس حملے کا جواز بھی مل سکے جو اس کو ایک طرح سے دے دیا گیا ہے ، اسرائیل اور امریکہ نے ایران کے خلاف کیا کرنا ہے یہ انہوں نے بہت اچھی طرح سے سوچ رکھا ہو گا ، اور اسے عمل میں لانے کے لئیے وہ صرف موقع کی تلاش میں تھے جوبدقسمتی سے ان کو دے دیا گیا ہے ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ دوراندیش لیڈر شپ ایسی پالیسیاں اختیار کرے جن کی وجہ سے طاقتور دشمن کی تمام تر عسکری تیاریوں ، صلاحیت اور ارادوں کو بےاثر کیا جا سکے ۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہوتی کہ اتنی طاقت ہوتی کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو عسکری لحاظ سے ویسا ہی جواب دیا جا سکتا جو وہ اپنی فیصلہ کن عسکری برتری کی وجہ سے فلسطینیوں کو اور لبنان میں دے رہے ہیں ۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ موجودہ لڑائی اور جنگ کا آغاز حماس کی طرف سے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل اور ڈرون حملوں کے زریعے کیا گیا تھا جس میں تقریبا بارہ سو اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے ، اور ان ہی حملوں کے جواب میں اسرائیل جو ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا اپنی طاقت اور عسکری برتری ، امریکہ کی مدد اور پشتبانی سے فلسطین اور لبنان کی عام آبادیوں پر بھیانک بمباری کر کے ساٹھ سے ستر ہزار عام شہری ہلاک کر دئیے ، ان کے مکان تباہ کر دئیے اور لاکھوں شہریوں کو اپنے گھروں سے دربدر ہونے پر مجبور کر دیا ۔
اب بھی وقت ہے کہ حالات کی نزاکت اور دشمن کے خطرناک ارادوں کو ناکام بنانے کے لئیے فوری طور ہر تمام یرغمالیوں کو رہا کرتے ہوے یکطرفہ طورپر جنگ بندی کا اعلان کر دیا جاے ، تاکہ اسرائیل اور امریکہ کے مزید غیر انسانی ، یکطرفہ اور دہشتناک عزائم کو ناکام بنایا جا سکے ۔ مشہور چینی جنگی ماہر " سن تزو " اپنی مشہور زمانہ کتاب " آرٹ اف وار " میں لکھتا ہے کہ جب دیکھو کہ جہاں دشمن ہہت زیادہ مضبوط اور تیار ہے تو خود کو اس کے سامنے جا کر تباہ ہونے کے بجاے خود کو اس کی زد سے بچا لے جاو ، اور کسی اگلے معرکے کے لئیے خود کو محفوظ رکھو ۔۔
واپس کریں