دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملک و قوم کے افق پر سرخ آندھی کےآثار
ظفروانی
ظفروانی
اس وقت ملکی منظر نامے میں ہمیں اپنے سامنے اور پس پردہ بہت کچھ ہوتا محسوس ہو رہا ہے ، ہمیں دہشت گردوں ، ان کے مددگاروں ، ترجمانوں ، سہولت کاروں ، سیاسی چہروں اور دیگر نقاب پوش کرداروں کی اس تمام عمل میں سہولت کاری کی شکل میں ایک عجیب ، مہیب اور خطرناک بلکہ شاید فیصلہ کن قسم کا مرحلہ سامنے دکھائی دے رہا ہے ۔ان کوششوں میں سرگرم ان عناصر پر امریکی ، اسرائیلی اور بھارتی مدد ، حوالہ افزائی اور سہولت کاری کا بھی فٹ پرنٹ کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن بہت سے شواہد اور قرائن کے باوجود ان کا براہ راست کوئی نام نہیں لے رہا ، یا لینے نہیں دیا جا رہا۔ کافی مطبوعہ مضامین میں تحریر کر چکا ہوں ، کہ طالبان دراصل امریکی پراکسی ہی ہیں، جن کے امریکہ سے شروع سے باقائدہ تنخواہیں لینے اور قطر آفس کا تمام خرچ لینے کی تفصیل چند برس قبل امریکی سینٹ کی مالیاتی کمیٹی میں پیش کردہ ایک سرکاری رپورٹ کے زریعے سامنے آئی تھی ، امریکہ " غلطی " سے افغانستان سے جاتے ہوے ان کے لئیے اربوں ڈالر کا جدید اسلحہ ایمونیشن اور دیگر فوجی آلات چھوڑ گیا ، عمران خان نیازی صاحب کے دور میں جب اسلام آباد میں طالبان کو مالی مدد دلوانے کے لئیے " اسلامی وزراء خارجہ کا اجلاس بلایا گیا، وہاں بھی اس کانفرنس میں امریکی نمائندے باقائدہ طور پر حاشیہ پر واضع طور پر موجود اور سرگرم دکھائی دئیے ۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے طالبان کو مالی بحران سے بچانے کے لئیے کئی ارب ڈالر جاری کر دئیے اور بات سامنے آنے پر کہا گیا کہ کمپیوٹر کی "غلطی" سے ایسا ہو گیا ۔
اب اس امر میں کوئی شک و شبہہ نہیں رہا کہ طالبان کو ہمیں ہی استعمال کر کے افغانستان میں گن پوائنٹ پر مسلط کرنے کا بنیادی مقصد پاکستان کا وسطی ایشیا اور روس سے براہ راست زمینی راستہ اور تعلق مسدود کرنا تھا تاکہ پاکستان اس طرف سے اپنی ترقی کے لئیے درکار تیل گیس اور دیگر ضروری ٹیکنالوجی کو حاصل نہ کر سکے ، اور کسی نئے علاقائی اقتصادی بلاک میں شامل ہو کر ہمارے بارے میں سوچ رکھے گئے ہمارے دشمنوں کی عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ نہ کھڑی کر سکے اور ترقی و خوشحالی کی طرف نہ چلا جاے ، بلکہ ان کے ارادوں کے مطابق تمام تر وسائل اور پوٹینشل ہونے کے باوجود مصنوعی معاشی بحران کا مسلسل اسی طرح شکار رہ کر سسکتا رہے ، یہی پاکستان کے دشمنوں کا بنیادی مقصد ہے ۔ اور اس مقصد کے حصول کی فضا بنانے اس کی مطابقت میں ملک کے لئیے خود کش پالیسیاں بنانے کے مقصد سے ملک کی سیاسی جماعتوں ، مختلف اداروں میں پال رکھے گئے اپنے دیرینہ وفاداروں ، جن میں سے اکثر کے مفادات بیرون ملک محفوظ بنا دئیے جا چکے ہیں یہ سب بیک وقت اپنی پوری تباہ کن طاقت ، پہنچ ، کے ساتھ اپنے اصل آقاوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئیے پوری طرح سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ۔
پاکستان میں بھی ستر سال سے اداروں میں پالے اور پروان چڑھانے گئے کچھ عناصر اس وقت اپنی ہی قیادت اور ریاست کے مفادات کے بر خلاف ، ملک اور اس کے نظام کے خلاف، عدم استحکام اور سی پیک کی مخالفت کرتے اور اس ضمن میں آئینی اداروں میں بیٹھے کچھ تشکیل شدہ گروہوں کی سرپرستی ، سہولت کاری اور حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ، ان کے اپنے سرپرست امریکہ کی وجہ سے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ معاملات سامنے اور واضع ہونے کے باوجود کوئی ان کا نام لینے اور ان کو چیلینج کرنے کی جرات نہیں کر رہا ۔ پاکستان میں عدلیہ میں گروہ سازی، سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کی کوششوں ، صوبہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں مختلف ناموں سے اور مختلف نمائشی سلوگنز کے نیچے سرگرم دہشت گردوں ، ان کے سیاسی چہروں ، آزاد کشمیر میں غیر واضع مقاصد کے حامل عناصر کی نفرت اور اشتعال انگیزی یہ سب بوجوہ امریکی سرپرستی میں ہی پاکستان کے خلاف چھیڑی گئی اس ہمہ جہت خطرناک جنگ کے مختلف پہلو ہیں جو دیکھنے میں تو علہدہ علہدہ اپنے اپنے زمہ لگاے مقاصد کے لئیے برسرعمل دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل یہ سب ایک ہی " غیر مرئی سکن" کے اندر اکھٹے پوری ہم آہنگی کے ساتھ اپنے اپنے حوالے کئیے گئے مشن کے لئیے برسرکار ہیں ، یعنی ان عناصر کی کھلی دہشت گردی ، اس کا سیاسی پرچار ، سماجی تقسیم کی کوششیں ، سیاسی اور معاشی افراتفری پھیلانا ، پاکستان کے مستقبل کے مثبت معاشی ارادوں میں رکاوٹ بننا ، آئینی اداروں کے اندر سازشی گروہ سازی کے زریعے حکومت کا کام کرنا مشکل بنا دینا ، یہ سب بنیادی طور پر آپس میں مربوط ایک ہی پیکیج ہے جو بیرونی ملک دشمن طاقتوں کے اشاروں ، اور کھلی مدد سے برسرعمل ہے ، ورنہ یہ وہی چہرے ہیں جن کی " استقامت " یہ قوم دھائیوں سے دیکھ رہی ہے جو کسی کے ایک اشارے پر بھیجے جہاز میں بیٹھ کر گلے میں رنگین پٹکے پہن لیا کرتے تھے جن کے ریکارڈ پر بار بار پارٹیاں بدلنا ، اور پوشیدہ بادشاہ گروں کے اشاروں پر حکومتیں گرا دینا یا بنوا دینے جیسے کارنامے رقم ہیں، جن میں سے کچھ ڈھیٹ تو کھل کر فخریہ طور پر خود کو کسی گیٹ یا کسی نالی کی پیداوار یا نمائندہ بتاتے تھے ، کچھ نظریہ ضرورت جیسے مثالی آغاز اور منتخب وزراء اعظم کو پھانسی لگانے ، معزول کرنے جیسے کارناموں سے گزرتے وہاں تک پہنچائے گئے جہاں ماضی قریب تک ایک اٹھارویں گریڈ کا آفیسر ان کا گلہ بان ٹہرایا جاتا تو یہ یسوع کی بھیڑوں کی طرح اس کے اشاروں پر حرکت کرتے ، لہزا یہ سمجھنا کہ ہوا اور فضاء میں کوئی ایسی جوہری تبدیلی رونما ہو چکی ہے جس نے تمام گروہ ضمیر فروشاں کے ضمیر کو اجتماعی طور پر یا گروہوں ، جتھوں کی شکل میں بیدار کر دیا ہے ، تو ایسا سمجھنا نہ تو درست ہو گا نہ ایسا ہو جانا قابل یقین اور ممکن ہے ۔
خار دار ببول پر کبھی انگور نہیں لگا کرتے ۔ یہ صورتحال محب الوطن عناصر کے لئیے لمحہ فکریہ ہے ۔۔
واپس کریں