ظفروانی
موجودہ حالات میں بوجوہ, ہمارے ملک کے اقتصادی حالات ایسے بنا دئیے گئے ہیں, کہ ان کو اس نظام کے اندر رہتے ہوے حل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے , مہنگاٸی اور کرنسی کی تیزی سے گھٹتی ہوٸی قدر اور تواناٸی کی مسلسل بڑھتی ہوٸی قیمتوں کی وجہ سے عام پاکستانی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے ۔ مملکت کے ہر شعبے میں انحطاط واضع ہے , بےروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے , جس کے اثرات ہمیں جراٸم کے بڑھتے ہوے واقعات کی شکل میں دکھاٸی دینے لگے ہیں , ان حالات میں ہمیں اگر آٸی ایم ایف سے قرض کی قسط مل بھی جاتی ہے, تو چندہی ماہ کے بعد ہم دوبارہ اسی مقام پر کھڑے ہوں گے اور بیرونی قرض جو ہماری کُل قومی آمدنی کے برابر ہو چکا ہے, وہ ہماری کُل قومی آمدنی سےبھی بڑھ جاے گا , اب ہمیں اسی مرحلے پر یہ سوچنا ہے, کہ ان بین الاقوامی ساہوکاروں کی ہدایات پر ہمیں یہ معاشی اور اقتصادی خود کشی جاری رکھنی ہے, یا ان حالات کا مقابلہ کرنےکے لٸیے کوٸی موثر حکمت عملی اختیار کرنی ہے , بعض موزی امراض کی ادویات بھی خطرناک ہوتی ہیں, جن سے کچھ مضر ساٸیڈ ایفیکٹ مرتب ہونے کا امکان ہوتا ہے, لیکن مرض کی نوعیت اورشدت کے پیش نظر یہ شدید ادویات استعمال کرنا مریض کی مجبوری بن جاتی ہے , جیسے کینسر کےمرض کے علاج کےلٸیے مختلف خطرناک اور تابکار ادویات اورکیمو تھراپی کا تکلیف دہ علاج کرناپڑتا ہے, جس علاج کے الگ سے مضر اثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں, لیکن معالج اپنی حکمت عملی سے یہ علاج اس طرح عمل میں لاتے ہیں, کہ انکےمضر اثرات کم سے کم جسم کو نقصان پہنچاسکیں اور مرض کا بھی شافی علاج ہو جاے ,بدقسمتی سے ہمارے قومی وجود کو اس معاشی اور اقتصادی بحران اورنظریاتی انتشار کی شکل میں انتہاٸی موزی اور جان لیوا مرض لاحق ہو چکا ہے , جس کا علاج اب روایتی طریقے سے ممکن نہیں رہا ۔
ہماری قوم اس وقت جاہلیت اور مختلف تعصبات کا بری طرح شکار ایک ایسے گروہ کی شکل میں تبدیل ہو چکی ہے, جس کازندگی کے ہر مکتبہ فکر اور شعبے میں انحطاط اور زوال کی طرف سفر تیزی سےجاری ہے , ان حالات میں کسی فرشتے نے آ کرہمارےلٸیے موثر اور ضروری منصوبہ بندی نہیں کرنی , جوکچھ بھی کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے, اور دستیاب علم اور وساٸل کے درست استعمال سے اس بےہنگم ہجوم کی شکل اختیار کر چکے غیر منظم گروہ کو دوبارہ سے ایک پُرعزم قوم میں بدلنا ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ ہمارے پاس اس مقصد کے لٸیے درکار وساٸل نہیں, بلکہ وساٸل وافر ہیں, صرف ان کے درست استعمال اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے , ہم ایک زرعی ملک ہیں, اور دنیا کے ایک بہترین آبپاشی نظام کے حامل ہیں , اسی طرح ہمارے وطن کا محل وقوع اسے وسطی ایشیا , روس , چین اور خلیجی ممالک کے درمیان ایک اہم ترین مقام دیتا ہے ,جس میں مستقبل کےبہت زیادہ کا معاشی اور اقتصادی امکانات اور مواقع پوشیدہ ہیں ,ہمارے خلاف مختلف طاقتوں کی سازشوں اور ہمیں اقتصادی اور معاشی طور پربےبس کرنے کے ان کے اقدامات کے پیچھے ہمارےاسی جغرافیاٸی محل و وقوع کوبےاثر کرنے کی خواہشات نمایاں ہیں , اگر پاکستان روس , چین , ایران اور وسطی ایشیا کےممالک کے ساتھ اپنا مضبوط رابطہ اور نیٹ ورک قاٸم کر کے ایک اقتصادی اور دفاعی بلاک تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتاہے, تو ایک طرف تو ہمیں افغان حکومت کی اپنے خلاف ہمارے دشمنوں کی شہہ پر ریشہ دوانیوں سے نجات مل جاے گی , اور دوسری طرف اس نٸے دفاعی اور اقتصادی بلاک کے قیام سے ہمیں بھارت کی فوجی برتری کے خطرے سےبھی چھٹکارا مل جاے گا , اور اس خطے میں امریکی اثرو رسوخ جو ہمارے خلاف واضع طور پر ایک خطرناک جال بننے میں مصروف ہے , بھارت کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر کا درجہ دٸیے ہوے ہے , اسے اس نٸے دفاعی و تجارتی بلاک کے قیام سے اپنے ان مقاصد میں ناکام اوربےاثر کیا جا سکتا ہے ۔
ہمیں موجودہ حالات میں فوری طور پر آٸی ایم ایف کو خدا حافظ بول کر پاکستان میں سوشلزم کےنفاز کا اعلان کر دینا چاہٸیے ۔ تیل اور گیس ایران سے روس اور وسطی ایشیا سے اور دیگر جدید ٹیکنالوجی روس اور چین سے حاصل کرنی چاہٸیے ۔ ہم زرعی ملک ہیں بہتر منصوبہ بندی سے اتنی پیداوار ضرور حاصل کر سکتے ہیں, کہ ملک کے عوام کی غزاٸی ضروریات پوری کی جا سکیں ۔ حالات جس طرف کو جا رہے ہیں ان کے منطقی دو ہی نتائج ہو سکتے ہیں, ایک خدانخواستہ ملک کا بکھر جانا اور دوسرا باہمی تعاون و اشتراک سے مساوات اور انصاف کی بنیاد پر متحد ہو کر مقابلہ کرنا، سوشلزم ہی اس کے لئیے واحد قابل عمل بنیاد فراہم کرتا ہے, جو ہر قسم کی تخصیص اور اندھا کر دینے والی عقیدت اور تعصبات سے پاک ہو ۔ سرمایہ دارانہ نظام ستر سال میں ہمارے مصائب دور کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ، ضرورت بہتر منصوبہ بندی اور دستیاب ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہے , ہمیں انسانیت کی بنیاد پر اپنے لٸیے سوچنا چاہئیے، انسانیت ہی مشترک صفت ہے , خدا تو عملی طور پر غیر جانبدار فریق ہے ۔
ہمارے کچھ دوست کسی تبدیلی کے امکان سے مکمل طور پر مایوس ہیں, اور کسی غیر مرٸی طاقت یا اپنے ہی غاصب دشمنوں سے یہ امید لگاے بیٹھے ہیں, کہ وہ کوٸی نماٸندہ یا فرشتہ بھیج کر ” سب کچھ “ درست کر دیں گے , یہ وہی سوچ ہے کہ حقیقت پھر " یزید " ہے ۔ کیا اس کی اس لئیے بیعت کر لینی چاہئیے کہ وہ بہت طاقتور ہے ۔
اب دوسری طرف یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے ہمیں جو آپشن یا اختیار دستیاب ہے, اس پر بھی زرا غور فرما لیں ۔۔ بھوک اور قرض سے سسک سسک کر مرنا ہے, یا جدوجہد اور کوشش کرنی ہے, جس میں جتنا امکان ناکامی کا ہے اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ امکان کامیابی کا ہے , بات صرف عزم و حوصلہ اور شعور کی ہے ۔ ہمارے ہاں استعمار اور اقتدار کا دیرینہ ہتھیار مزھبی جاہلیت اور جنونیت کی شکل میں پروان چڑھا دیا گیا ہے, جس نے ان اقتصادی مشکلات اور انسانی آلام کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہمارے معاشرے اور ملک کو جہنم بنا رکھا ہے, لہزا پسند یعنی چوائس ہماری اور آپ کی ہے, بدستور جہنم میں رہنا ہے یا حالات کو بدلنے کے لئیے کچھ منظم جدوجہد کرنی ہے !
واپس کریں