دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بجلی اور آٹے سے اقوام متحدہ تک
ظفروانی
ظفروانی
آزاد کشمیر میں بجلی کے اور آٹے کے مہنگے نرخوں کو کم کرنے کے مطالبے سے شروع ہونے والا احتجاج پراسرار طور پر اپنی نوعیت اور مطالبات تبدیل کرتے دکھاٸی دے رہا ہے ,اس سلسلے میں بیرون ملک مقیم ایک صاحب کی طرف سے ایک خط نما پوسٹ آزاد کشمیر کے بہت سے اہل قلم اورصحافی حضرات کوٹیگ کی گٸی ہے , جس میں کسی ایسے کانفیڈینشل خط کا زکر ہے جو آزاد کشمیر کےکسی اعلیٰ عہدیدار نے ضلعی پولیس افسران کو تحریر کیا ہے , اور اس میں موجودہ عوامی احتجاج کی وجہ سے روز مرہ کی عام زندگی کی بحالی کے مقصد اور امن و امان کےقیام کے سلسلے میں ان کی ضروریات کے بارے میں راے مانگی گٸی ہے ,کیونکہ موجودہ طویل اور مسلسل بڑھتا اور اپنی نوعیت تبدیل کرتا ہوا یہ عوامی احتجاج عام شہریوں کی زندگی تک کومتاثر کرنے لگا ہے ۔
بیرون ملک مقیم ان صاحب نے کٸی دوسرے اصحاب کے ہمراہ یہ دھمکی دی ہے , کہ مزید نفری یا سازو سامان منگوانے کا ارادہ فوری طور پر ترک کر دیاجاے ورنہ وہ اور دیگر اصحاب ” یو این او “ سے رجوع کر کے اپنی شکایات ان کے سامنے پیش کریں گے , اس کے علاوہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے بھی شکایت کی جاے گی ۔ گویا ان کےمطابق جیلوں , تھانوں اور دیگر تنصیبات پرحملہ کرنے کے ارادے ظاہر کرنے والوں کو ایسا بلا روک و ٹوک کرنے دیا جاے ,ورنہ وہ ” یو این او “ کو آزادکشمیر میں براہ راست مداخلت کے لٸیے لکھیں گے ۔
جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت, راشتریہ راٸفلز , سینٹرل ریزرو سپیشل پولیس , بی ایس ایف سمیت ہر قسم کی اپنی نیم فوجی فورسز کولاکھوں کی تعداد میں مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں کھلے عام شروع سے تعینات اور استعمال کرتا رہا , بلکہ اب تک بھی غیرمحدود تعداد میں کرتا ہے , یہ بھارتی مختلف سیکورٹی فورسز کشمیر میں ہزاروں بےگناہ شہریوں کی ہلاکتوں , پرامن عوامی احتجاجوں اور مزہبی اجتماعات تک پر شدید تشدد اور گرفتاریوں میں کھلے عام ملوث ہوتے ہیں , تب یہ یو این او کی پیشگی , دہاٸی دینے والے حضرات جو اپنے خیال اور پروگرام کے مطابق ” پاکستان کےسیکورٹی اداروں کی طرف سے” متوقع تشدد“ کی دہاٸیاں دے رہے ہیں , یہ انتہاٸی ڈھٹاٸی سے, اپنے اس پھیلاے جانے والے خط میں مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں موجود بھارتی پیرا ملٹری فورسز کی موجودگی کا جواز بھی پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ توبھارت نے امن و امان کےمقصد سے وہاں وہ فورسز رکھی ہیں , گویاان کے مطابق بھارتی فورسز مقبوضہ علاقے میں قانون کی حکمرانی قاٸم کر رہی ہیں اور یہاں ضرورت کے تحت روز مرہ کی زندگی بحال کرنے کے لٸیے پولیس کی مدد کے لٸیے کوٸی اضافی نفری یا سامان منگوایا جاے گا وہ ظلم اور قتل و غارت کے لٸیے منگوایا جاے گا ۔
کئی اضلاع میں اس احتجاج جس کے ابتداٸی بنیادی مطالبات بجلی کے زیادہ بلوں اور اس سے قبل آٹے کی قیمتوں میں باقی پورے ملک کی طرح اضافے کےمعاملات تک محدود تھے , لیکن دیکھنے میں یہ آ رہا ہے, کہ ان عام سے مطالبات کے لٸیےہونے والے عوامی مظاہروں اور احتجاج میں غیر محسوس طریقے سے عوام کی اشتعالی حالت سے فاٸدہ اٹھاتے ہوے مزید مطالبات کے اضافے کا پراسرار سلسلہ مسلسل جاری ہے , اب تو ان مطالبات میں ” اقصاے چن “ تک کی بازگشت سناٸی دے رہی ہے جو ان کے مقصد , سمت اور ڈوریاں ہلانے والوں کی طرف واضع طور پر نشاندھی کر رہی ہے ۔مختلف شہروں میں سٹیج پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچتے , اشتعال انگیزی پر اکساتے , زہر آلود اور نفرت انگیز تقاریر کرتے کچھ ایسے کردار بھی دکھاٸی دے رہے ہیں , جنہوں نے ان عوامی احتجاجوں کو حکومت کی طرف سے مناسب انداز میں ڈیل نہ کرنے کا واضع فاٸدہ اٹھایا اور پہلے یہ لوگ خود کھل کر سامنے نہیں آ رہے تھے, بلکہ تاجر تنظیموں کے عہدیداران و دیگر عوام وطالب علموں کو آگے رکھا گیا تھا , جن میں سے کچھ اس احتجاج کے دوران گرفتار بھی ہوے جن کو بعد ازاں ضمانتوں پر رہابھی کیا جاتا رہا , لیکن دیکھنے میں یہ آیاکہ کیونکہ یہ عام شہری اپنے تٸیں ایک جاٸز معاملےپر احتجاج کررہےتھے لیکن جب انہیں مطالبات اورنعروں کی تبدیل ہوتی نوعیت, کے مضمرات محسوس ہوے تو انہوں نے احتجاج کے اس رخ سے خود کو علہدہ کر لیا اور خصوصاً مظفرآباد کی سٹیزن کمیٹی نے اپنا ایسا چارٹر آف ڈیمانڈ سامنے لایا جس میں بجلی اور آٹے کے مہنگے انراخ میں کمی کے مطالبے کے ساتھ ضلع مظفرآباد کو درپیش دیگر جاٸز مطالبات کو بھی شامل کیا گیا , جو تمام مطالبات انتہاٸی مناسب , جاٸز اور قابل عمل تھے ۔
لیکن دیگر کچھ اضلاع میں مظفرآباد کی اس صورتحال کو د یکھتے ہوے اس احتجاج کو کسی اور سمت لے جانے کی خواہش رکھنے والے , حکومت کی طرف سے کمزور رد عمل اور کھلی چھوٹ دیکھ کر کھل کر سامنے آ گٸے ہیں , اور جعلی ادویات بیچنے والوں کے پیشہ ورانہ اندازمیں سٹیج پر ڈرامہ بازی کےاندازمیں زہریلی نفرت آمیز , اشتعال انگیزی کھل کر کر رہے ہیں ۔ حکومت نے بھی دباو میں آتے ہوے ان احتجاجی مظاہرین کو ایک طرح سے کھلی چھٹی دینے کا راستہ اختیار کیا , کہیں اگر احتجاجی مظاہرین کے خلاف کوٸی کارواٸی کی بھی گٸی وہ بھی اتنے سرسری انداز سے اور نیم دلی سے کی گٸی , کہ اس کارواٸی نے اس احتجاج کے اضافے میں ایک عمل انگیز کا کام کیا , اس مرحلے پر پس پردہ پراسرار کردار سامنے آگٸے اور آٹے, بجلی کے نام پر چلاٸی جانے والی احتجاجی تحریک کو ” خود مختاری “ اور الحاق کے سوالات یامطالبات کی صورت دی جانےلگی , سٹیج سے پیشہ ور مقرر انتہاٸی نفرت انگیز زہریلے پراپگنڈے کےزریعے کھلے عام عوام کوبغاوت پر اکسانےلگے , جیلوں کو توڑنے اور عورتوں بچوں کی انسانی ڈھال کے پیچھے پولیس تھانوں اور دیگر سرکاری تنصیبات پر حملے کے اعلان ہونے لگے, اوراس کے لٸیے منصوبہ بندی کی جانے لگی , اسی مرحلے کے ایک حصے کے طور پر اب حکومت اور انتظامیہ کو یو این او کے پاس جانے کی دھمکیوں کے زریعے بلیک میل کر کے مکمل طور پر بےاثرکر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے , اس میں ایسے ایسے افراد کے حوالے دٸیے جا رہے ہیں جن کا ماضی بزات خود سرمٸی ( گرے ) دھویں میں مستور رہا ہے, اور وہ لوگ کبھی نہ کبھی بھارت کے لٸیے جاسوسی کے الزام میں زیر تفتیش و تحقیق بھی رہ چکے ہیں ۔ ۔ اب ان میں سے بہت سےبیرون ملک بیٹھ کر گاہے بگاہے اُن تفتیش کندگان اور شک کنندگان کو درست ثابت کرتے رہتے ہیں ۔
یہاں کچھ اضلاع میں اس احتجاج کی آڑ میں جاری سرگرمیوں پر نظر ڈالنے سے ان کے پیچھے چھپے چہرے پہچاننا اب کچھ مشکل نہیں رہا ۔یہ جوبازیگر چند اضلاع میں سٹیج پرناچ ناچ کر اور مجمع بازوں کے انداز میں عوام میں اشتعال اور نفرت کا زہر پھیلانے اور کھلے عام ان کو تشدد پربھڑکانے کا کام کر رہے ہیں ان کی بےخوفی اور اس مرحلےمیں کھل کر سامنے آ جانے سے , حکومت , انتظامیہ اور زمہ دار اداروں کی نیت اور صلاحیت پربھی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔
ان عناصر کی طرف سے اس مرحلے پر شروع ہونے والے ” خود مختاری “ والے معاملے کی الگ سے کچھ ” ڈی کوڈنگ “ کی ضرورت ہے , کہ عوام کے سامنے اِس مرحلے پر بجلی , آٹے کے مطالبات سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کو خود مختاری “ کے مطالبے میں بدلنے اور اس کی حقیقت اور ممکنات کا ایک ”فرضی“ منظرنامہ ماڈل کرنا ضروری ہو گیا ہے , تاکہ جزبات کاشکار بنا دٸیےگٸے عوام اس معاملے کے اس زاوٸیے پربھی نظر ڈال سکیں ,لیکن ایک بات کو واضع کرنا ضروری ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے کسی بھی شہری کو اپنی ریاست کےمستقبل کے تعین کے بارے میں کوٸی بھی نظریہ رکھنے کا پورا حق ہے لیکن جب مختلف مشکوک پس منظر کے حامل افراد اس نظرٸیے کی آڑ میں اور اس کے نام پر , کھلے عام دشمن کے مقاصد کے لٸیے سہولت کاری کریں گے , تو ان کو ان مزموم سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہٸیے , یہ نظریاتی بحث کشمیر میں ستر سال سے جاری ہے کہ کچھ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں , کچھ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور کچھ ریاست کو اس کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کے ایک مخصوص دور یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کے دور کی حدود کی شکل میں بحال کرنا اور اسے ایک خود مختار ریاست بنانا چاہتے ہیں , یہ ممکن اور قابل عمل بھی بھی ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے , لیکن اس معاملے پر آٹے اور بجلی کے نرخوں کے بارے میں احتجاج کرتے عوام کوبتدریج اشتعال دلا کر اور اس اشتعال سےفاٸدہ اٹھاتے ہوے ان کے احتجاج کو مطالبہ خود مختاری کےنعروں اور ایک پرتشدد تحریک کی شکل میں بدلنے کی منظم کوشش نظر آ رہی ہےاور اس معاملے پر وقت کاانتخاب ہی بہت سے پس پردہ حقاٸق کو آشکار کرتا ہے ۔
یہاں ہم ” فرض “ کرلیتے ہیں کہ, پاکستان ان ”احتجاجیوں“ کے دباو پر اِن کا ” خودمختاری “ کا مطالبہ تسلیم کر لیتا ہے, اورآزاد کشمیر سے اپنی فوج مکمل طور پر نکال لیتا ہے , جب کہ ریاست جموں کشمیر کا بڑاحصہ بدستور بھارت کی نو لاکھ افواج کے اور لاکھوں پیرا ملٹری فورسز کے قبضےمیں رہتا ہےتو, کیا پھر اس طرح صرف پاکستان کےآزاد کشمیر سے اپنی فورسز کےنکال لینے سے ان کو “خود مختاری “ مل جاے گی ؟ کیا یہ اس طرح اپنے ”معروف“ نعرے کےمطابق مکمل سابقہ ریاست جموں و کشمیر , لداخ و تبت ہا و اقصاے چن “ بنانے میں کامیاب ہوجاٸیں گے ؟ یا انہوں نے یہ خود مختار کشمیر صرف آزاد کشمیر کے پانچ ہزار مربع میل کے رقبےمیں ہی بنانا ہے ؟ اور کیابھارت اس صورت میں ان کی خواہشات کے ” احترام “ میں خاموش بیٹھا رہے گا , اور پاکستانی افواج کی عدم موجودگی میں آگے بڑھ کر چھ گھنٹے میں اس پوری بیلٹ پر قبضہ نہیں کر لے گا , پھر کون اس سے علاقے کادفاع کرے گا اور کس میں یہ صلاحیت ہے , شاید اس وقت یہ بےوقت اور غیر متعلق موضوع چھیڑ دینے اور اس کے نام پر احتجاج بھڑکانے کی کوشش کے پیچھے اصل میں یہی مقصد ہی ہو , جس کا اعلان بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اپنے دورہ ٹیٹوال اور وہاں علامتی شاردہ مندر کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں کیا تھا ۔
ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اِس طرف اِس نعرے کی آڑ میں عوام کوبھڑکانے اور مشتعل کرنے والوں کے ساتھ بھارت نے کوٸی خفیہ یقین دہانی کر رکھی ہو کہ پاکستان کے ان علاقوں سے فوج نکالتے ہی ہم بھی ” آپ کی “ پوری ریاست لداخ , جموں سمیت خالی کر کے رام رام کرتے گنگا اشنان کے لٸیےبنارس چلے جاٸیں گے , اور جاتے جاتے جموں کے ” راج میوزیم“ میں پڑا , آنجہانی مہاراجہ ہری سنگھ جی کا تاج بھی آپ کے حوالے کر جاٸیں گے , اور آپ شوق سے بنا لیجٸیے گا ” خود مختار ریاست جموں و کشمیر لداخ و تبت ہا بشمول اقصاے چن “ اگر تو ان حضرات کی اس سلسلے میں , بھارت کے یا اس کے زمہ دار ”قومی سلامتی کے مشیر “ کے ساتھ ایسی کوٸی مفاہمت یا یقین دہانی موجود ہے , تو اسے سامنے لایا جانا چاہٸیے , تاکہ ان کی اس خواہش اور تحریک کو تقویت حاصل ہو سکے ۔ کیونکہ خود مختاری کا نعرہ صرف آزاد کشمیر کے لٸیے لگانا صرف بدنیتی اور سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ بلکہ ناقابل عمل بھی ہے ۔ اور اس نام پر آزاد کشمیر جیسے حساس خطے میں افراتفری اور انارکی برپا کرنے کا یہ وقت اور موقع منتخب کرنا قابل غور ہے ۔
واپس کریں