ظفروانی
افغانستان کی پاکستان کے لئیے کئی حوالوں سے اہمیت ، اس کے محل و وقوع ، وہاں رونما ہونے والی مختلف نوعیت کی سرگرمیوں اور واقعات ، افغان عوام کے ساتھ ، تاریخی، نسلی ، اور ثقافتی رشتوں ، اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر قائم فطری تعلق، کی وجہ سے ہے ۔ پاکستان کے لئیے افغان عوام کے جمہوری اور انسانی حقوق کی حمایت کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر افغانستان کے معاملات یا حالات سے پاکستان کسی بھی طرح لاتعلق یا بےخبر نہیں رہ سکتا ۔
ایک پرامن ، خوشحال جمہوری افغانستان ہی پاکستان کے لئیے وہاں مسلح گروہوں کے اقتدار کی نسبت سود مند اور موافق ہو سکتا ہے ۔ گویا افغانستان کا امن ، ترقی اور افغان عوام کی خوشحالی براہ راست پاکستان کے امن ، ترقی ، اور خوشحالی کے ساتھ منسلک و وابستہ ہے ۔ جس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ وہاں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے، اس سب کا گہرائی سے تجزیہ کرنا ، اور صورتحال کے مطابق پالیسی اختیار کرنا پاکستان کی سالمیت اور ترقی کے لئیے انتہائی ضروری ہے ، پاکستان اس بات کا کسی بھی طرح بھی متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہاں کوئی ایسا خلاء پیدا ہونے دے ، جس کو پر کرنے کے لئیے پاکستان کے روایتی دشمن آگے بڑھ آئیں ، ایرانی بندرگاہ "چہار بہار" کا انتظام بھارت کے حوالے ہو جانا ، بھارت کی طرف سے پاکستان کی ہی " ناکہ بندی " کے سلسلے ہی کی ایک ایسی ہی کاروائی ہے ۔ پاکستان سے سی پیک کی روس اور وسطی ایشیاء کی طرف توسیع اور ان ممالک اور خطوں سے ریل اور سڑک کے زریعے ملانے کا راستہ پرامن افغانستان سے ہی گزر کر جا سکتا ہے ، اس طرح اس خطے میں چین ، روس اور پاکستان کے مفادات یکساں ہیں ، اسی وجہ سے روس بھی واضع طور پر افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتا اور اقدامات اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے ۔ لیکن ہماری طرف سے اس مقصد کی تکمیل کے لئیے ارادہ اور اقدام بلکہ نیت تک کا شدید فقدان واضع ہے ، ہماری افغانستان کے بارے میں مختلف پالیسیز اور اقدامات "رد عمل" کے طور پر اٹھاے جاتے ہیں ، جس میں ہمارے ملک میں دیرینہ طور پر بڑی مہارت سے بچھاے امریکی اثر و رسوخ کے جال کا کردار اہم ہے، جو پاکستان کے اندر سے ہی ہماری قومی حکمت عملی اور اقدامات کوامریکی مفادات کے تحت رکھنے کے لئیے ہی امریکہ، پاکستانی نظام اور سیاست تک میں واضع طور پر اپنے حدود سے تجاوز کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
دوسری طرف طالبان اپنے دعووں کے برعکس خود امریکی پراکسی ہیں ، داعش اور القائدہ کی طرح ، داعش کو امریکہ نے ہی" پلان بی " کے تحت بوقت ضرورت متبادل کے طور پر افغانستان میں رکھا ہوا ہے ، ان کو امریکی خواہش پر " نورستان ، بدخشاں اور پامیر کے بالائی علاقوں اور واخان تک میں رکھا گیا ہے، تاکہ پاکستان کے روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کے، ان علاقوں کے زریعے ممکنہ رابطے کو مسدود کیا جا سکے ۔ داعش کو یہاں امکانی طور پر یہی زمہ داری دی گئی ہے ، اسی وجہ سے امریکی ہدایت اور حکم پر طالبان مختلف طریقوں سے داعش کی سہولت کاری میں مصروف ہیں ۔ جب کہ زبانی مخالفت کی آڑ میں دراصل طالبان عملی طور پر داعش کے سہولت کار بھی ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ افغانستان کے اقتدار پر مکمل قبضے ،اربوں ڈالر کے ان ہی کے لئیے چھوڑے امریکی اسلحہ سے لیس طالبان کی طرف سے ، دو علاقوں میں موجود داعش کے خلاف نہ تو ایک بھی باضابطہ کاروائی کی گئی نہ ہی ان کے درمیان کوئی معمولی جھڑپ تک ہوئی ہے، بظاہر یہ دونوں فریق " پرامن بقاے باہمی " پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔ جب کہ غیر اعلانیہ طور پر طالبان کی طرف سے جس طرح پاکستان کے خلاف برسرپیکار تحریک طالبان اور بلوچی ماجید برگیڈ قسم کے دہشت گرد گروہوں کی مدد اور سہولت کاری کی جا رہی ہے، ویسے ہی بلکہ زیادہ منظم طریقے سے داعش کے ساتھ بھی طالبان کا عملی تعاون بھی واضع طور پر کئی سطحوں پر مسلسل جاری ہے ۔
ایسی کاروائیوں کو کبھی اعلانیہ نہیں کیا جاتا جیسے اس سب سے اوپر امریکہ اور اس کی سی آئی اے ہے، جو ان مسلح گروہوں سے اس خطے میں اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں ، ان کو اس کام میں اپنے " سٹریٹیجک پارٹنر بھارت کا تعاون بھی مخلف سطحوں پر حاصل ہے ، لہزا یہ کہنا کہ امریکہ تو ان کی ( زبانی کلامی ) مخالفت کرتا ہے، بالکل گمراہ کن اوربےبنیاد موقف یے ، یاد رہے کہ جناب عمران خان نیازی کی حکومت کے آخری ماہ میں طالبان کو مالی طور پر سہارا دینے کے مقصد کے لئیے فنڈ ریزنگ کے لئیے اسلامی وزراے خارجہ کی ایک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی گئی تھی، اس کانفرنس میں امریکی سرکاری نمائندوں اور سینئیر سی آئی اے اہلکاروں کی پراسرار سایوں جیسی نقل و حرکت اور موجودگی پوشیدہ نہ رہ سکی تھی ۔ لہزا پاکستان کو اس صورتحال کو اس زاوئیے سے بھی نظر میں رکھنا چاہئیے ، خصوصا جب ٹی ٹی پی اور ماجید برگیڈ کے دہشت گردوں کی سہولت کاری اور ان کے لئیے محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹکس کاروائیاں افغانستان سے ہی بزریہ طالبان جاری ہیں، اس سہولت کاری کا اقرار بہت سے گرفتار ہونے والے دہشت گرد بھی کر چکے ہیں ۔ لہزا پاکستان کی حکومت کو تو یہ سب دیکھنا اور سمجھنا ، اور اسی مناسبت سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے مناسب و موثر حکمت عملی ترتیب دینی ہے ، کیونکہ پاکستان کے لئیے ان مفادات اور مواقع کھو کر یا ان کی طرف سے آنکھیں بند کر کے آخر وہ کیا چیز ہے جس کا ہم دفاع کریں گے !
واپس کریں