ظفروانی
دو ہزار سال قبل افلاطون کہہ گیا تھا , کہ وہ ملک تباہ ہو جاتے ہیں, جہاں تاجر اور فوجی حکومت کریں ” سرمایہ دار مزاحمت نہیں کر سکتا “ اس کے مدنظر ہمیشہ پہلے اپنے مالی مفادات ہوتے ہیں, لہزا وہ ان کو بچانے کے لٸیے قومی معاملات میں مجرمانہ سمجھوتے کرتا ہے , جس مجرمانہ حد تک پہنچی ہوٸی ” مصلحت پسندی “ کے مظاہرے آج ہم اپنے ملک کی قومی سیاست میں دیکھ رہے ہیں , اسی طرح حکومت چلانے کے لٸیے جس علم , فراست , فہم اور لچک کی ضرورت ہوتی ہے فوجی اس سے محروم ہوتا ہے , اس کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے, کہ اس کی نظر میں صرف دو طرح کے انسان ہوتے ہیں, یا دوست یا دشمن , اسے صرف دو ہی رنگ نظر آتے ہیں , سیاہ و سفید , دیگر کسی ممکنات کو اس کا زھن ہی تسلیم نہیں کرتا , اس کمی کو پورا کرنے کے لٸیے وہ سازش کا طریقہ اختیار کرتا ہے , جو مزید نقصان کا باعث بنتا ہے ,, یہ ویسے ہی ہوتا ہے جیسے محاورہ ہے کہ ” قانون کا نفاز , غیر قانونی طریقے سے “ لیکن اس طرح انارکی اور انتشار تو پھیل سکتا ہے, قانون نافز نہیں ہو سکتا, قانون ہمیشہ قانون کے طریقے سے ہی نافز ہو سکتا ہے, کوٸی دھوکہ کوٸی فراڈ اس سلسلے میں کارآمد اور دیرپا حل کبھی ثابت نہیں ہوا کرتا , چرچل نے اسی زھنیت کے بارے میں کہا تھا کہ جنگ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اسے صرف فوجیوں کے ہاتھ نہیں دیا جا سکتا ۔
ہم اپنی تاریخ میں اس روٸیے کے ثبوت دیکھ چکے ہیں جب جنرل ایوب خان ” کشمیر “ کے لٸیے انیس سو پینسٹھ کی جنگ کرتا ہے, اور پھر اس جنگ کے اختتام پر معاٸدہ تاشقند میں کشمیرکا لفظ تک نہیں لکھوا پاتا , اور اسے بھی ”فخریہ“ طور پر اپنی فتح بتاتا ہے , اسی طرح پرویز مشرف ایک طرف حکومت اور اپنی ہی دیگر فورسز کو بتاے بغیر کارگل کرتا ہے , اور پھر یہی مشرف کھٹمنڈو کانفرنس میں خود جا کر بیٹھے ہوے واجپٸی کے سامنے ہاتھ بڑھا کر کھڑا ہو جاتا ہے , گویا وہی بلیک اینڈ واٸٹ یا فتح یا شکست ۔
ان سیاست دانوں اور لیڈرز کی زبانیں کسی قومی مفاد یا مصلحت نے نہیں, ان کے اپنے اور اولادوں , خاندانوں کے مالی مفادات نے پکڑ رکھی ہیں , اگر انسان یا لیڈر خود صاحب کردار ہو تو کسی ” ماتحت “ کی کیا مجال کہ سرکار اور مملکت و حکومت کی ہی دی ہوٸی طاقت سے ان کو بلیک میل کرے, یا ان کو کوٸی غیر قانونی و غیر قانونی حکم دے , یہ اسی وجہ سے یہ سیاست دان اور لیڈرز بلا تخصیص ان ماتحتوں جن کو یہ قانونی طور پر یک جنبش قلم معزول کرنے کا مملکت کے قانون و آٸین کی مضبوط ضمانت کے تحت مکمل اختیار رکھتے ہیں , ان ہی بلیک میلر مجرموں کے آگے ” چوں چوں ” کرتے ہیں , ان ہی سے ” مدد “ کی درخواستیں کرتے ہیں , ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ جب وہ ان سے کوٸی غیر آٸینی و غیر آٸینی مطالبہ کرتے ہیں , تو جیسے وہ اِن کی وڈیوز اور آڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کرتے ہیں, یہ بھی ان کی ان ”خلاف قانون و آٸین “ زبانی , تحریری و دیگر مراصلت , و پیغام رسانی کو ثبوت کے طور پر قوم کے سامنے رکھتے ہوے, ان کو اعلانیہ معزول کیوں نہیں کر دیتے , ان کے خلاف تحت ضابطہ کارواٸی , تحقیقات اور کورٹ مارشل وغیرہ جیسے اقدامات کا فوری علان کیوں نہیں کرتے , اگر یہ نام نہاد مصلحت زدہ حکمران اور لیڈرز ایسا کرنے کی ہمت پیدا کریں, تو کسی کی کیا مجال کہ وہ ملک و قوم کے خلاف اس طرح کھل کر سازشیں کریں ,
اپنے ہی ملک کے اثاثہ جات , صلاحیتیں, اختیارات اور طاقت اپنے ہی ملک و قوم اور اس کے نظام کے خلاف اعلانیہ طور پر سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے لٸیے استعمال کریں ,اور نوبت یہاں تک آ جاے کہ یہ قومی مجرم, عوام کے سامنے اپنے ان کھلے مجرمانہ غیر قانونی اور غیر آٸینی اقدامات کی وکالت بھی کریں, اور ان کھلے مجرمانہ اقدامات کو اپنی کارکردگی اور کارنامے بنا کر پیش کریں , دشمن کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں, ان کو ملکی مفاد کے تناظر میں دیکھنے کے بجاے اپنے محکموں یا اداروں کے ” تحفظ “ کے تناظر میں یا زاتی مفادات و تحفظ کے نقطہ نظر سے دیکھنے اور طے کرنے لگیں , سی پیک جیسے پراجیکٹ کا زاتی ناجاٸز مفادات کے عوض ملک دشمن طاقتوں کے ہاتھوں سودا کر دیں, ملک کے قومی اہم ترین مالیاتی ادارے عالمی طاقتوں کے گماشتوں کے حوالے کر دیں , توباقی کیا رہ جاتا ہے , قوم کب تک خاموش رہے گی ۔ اور پاکستان کے جسم سے آکاس بیل کی طرح لپٹ کر اس کا خون پیتے اور خود پھلتے پھولتے ان عناصر سے کب پوچھےاور کب ان کا بھی قرار واقعی احتساب کرے گی ؟ ( ظفر محمود وانی)
واپس کریں