دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنرل فیض حمید اور طاقت کا کھیل
اظہر سید
اظہر سید
جنرل باجوہ کی سربراہی میں 2018 میں دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینے کا آپریشن شروع کیا گیا تو ساتھ ہی ففتھ جنریشن وار کے نام پر جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کا بازار بھی گرم کیا گیا ۔پراپیگنڈا کے زریعے عوامی رائے عامہ بنانے کیلئے اربوں روپیہ خرچ ہوئے ۔ائی ایس آئی کے دو سابق چیف اعتراف کر چکے ہیں نواز شریف اپنے قد سے بڑا ہو رہا تھا اسے واپس لانا مقصود تھا ۔ایک سابق ڈی جی جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام بھی عمران خان کے ایک امیدوار کے انتخابی جلسہ میں تسلیم کر چکا ہے "ہم نے عمران خان کو اجازت دی ۔سابق چیف جسٹس کھوسہ کی طرف سے عمران خان کو پناما کا معاملہ عدالت میں لانے کے ٹیلی فون کے متعلق خود عمران خان بھرے جلسے میں اعتراف کر چکا ہے ۔
طاہر القادری اور عمران خان کا ڈی چوک دھرنہ جب جاری تھا اس وقت تمام ریاستی مشنری ، جنرل باجوہ کی قیادت میں طاقت ور فوج اور ففتھ جنریشن وار کے سائبر سیلوں ،اینکرز اور عدالتوں میں پالتو ججوں کے زریعے "نواز شریف زرداری چور ہیں" کی منظم مہم چلائی گئی اور عوامی رائے عامہ ہموار کی گئی ۔
آپریشن کامیاب ہوا نواز شریف ،زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن ایسی دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دے کر عمران خان کی حکومت بنوا دی گئی ۔
یہاں تک بات ٹھیک اور کنٹرول میں تھی ۔اصل کھیل حکومت سنبھالنے کے بعد شروع ہوا ۔جو آپریشن بظاہر نواز شریف کو اپنے قد میں واپس لانے کیلئے کیا گیا تھا اس کا رخ سی پیک اور چین کی طرف ہو گیا ۔چینی سفیر چیف جسٹس سے بھی ملا ملتان میٹرو اور لاہور اورنج ٹرین کا معاملہ طے کرنے کی درخواست کی ۔چینی وفود فوجی حکام سے بھی ملنے لگے لیکن شنوائی ہونے کی بجائے چین کے خلاف بھی عوامی رائے عامہ بنانے کا باریک کام شروع کر دیا گیا کہ چینی لڑکے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے اعضا نکال کر فروخت کر دیتے ہیں ۔
ریاستی ضمانت تھی چینی قرضے آئی ایم ایف سے شئیر نہیں کئے جائیں گے لیکن دنیا کی حقیقی معاشی سپر پاور کے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ چینی قرضے شئیر کر دئے گئے ۔
عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران مالکان اور عمران خان ایک ہی پیج پر تھے اور جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو ادارے کی تمام طاقت ،تمام ریاستی وسائل اصل میں جنرل فیض حمید کے پاس ہی تھے ۔
طاقت کا اندھا نشہ تھا ۔ففتھ جنریشن وار کی وجہ سے فوج ،عدلیہ اور عوام میں ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہو گیا جو نواز شریف زرداری چور اور عمران خان کو ہیرو سمجھنے لگا ۔
اس طبقہ کے وسائل بھی فیض حمید کے پاس آ گئے ۔بڑے بڑے صنعتکار ،گھی ملوں والے ،سٹاک بروکر ،پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض ایسے ،چیف جسٹس بندیال،ثاقب نثار کھوسہ ،گلزار اور صوبائی ہائی کورٹس میں سب جگہوں پر فیض حمید کا سکہ چل رہا تھا کیونکہ ادارہ اور عمران خان ایک پیج پر تھے اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے تھے ۔ اس کنٹرول نے جنرل فیض حمید کو طاقت ،دولت اثر رسوخ سب کچھ اتنے بڑے پیمانے پر دے دیا وہ خود کو ریاست سے بالا سمجھنے لگے ۔
ریاست نادہندہ ہونے پر فوج کو غلطی کا احساس ہوا لیکن فیض حمید کا عمران خان کے ساتھ مفادات کا وہ رشتہ بن چکا تھا دونوں نے فوج کے فیصلے کے خلاف ایک متوازی انفراسٹرکچر تشکیل دے دیا جس کے تمام کھلاڑی خود اسٹیبلشمنٹ کے ہی پالتو تھے لیکن وہ سارے کھلاڑی جنرل فیض حمید کو ہی اسٹیبلشمنٹ کا اصل نمائندہ سمجھنے لگے تھے ۔
ججوں کا تاثر یہی تھا جس طرح مشرف کے خلاف وکلا تحریک کے پیچھے جنرل کیانی کی سربراہی میں فوج تھی اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم حکومت کے خلاف اقدامات ،مہم یا فیصلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہیں اور یہ تاثر پیدا کرنے کا ہدایتکار جنرل فیض حمید تھا ۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر پہلے پشاور اور پھر بہاولپور ٹرانسفر کرنا جنرل فیض حمید کو کمزور نہیں کر سکا اور وہ ارمی چیف بننے کی خواہش کے ساتھ میدان میں پوری طاقت سے موجود رہے ۔
نواز شریف سے بھی معافی تلافی کی کوشش کی ،جنرل باجوہ اور شاہد خاقان عباسی کی سفارشیں بھی درمیان میں ڈالیں لیکن نواز شریف ایک لمحہ کیلئے بھی جال میں نہ پھنسے ۔
عاصم منیر کا آرمی چیف بننا فیض حمید کیلئے بہت بڑا شاک تھا اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا ۔
جتنا بڑا انفراسٹرکچر موجود تھا اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو عمران خان کا جو اعتماد حاصل تھا اس کے بینفشری اعلی عدلیہ،میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود تھے۔ حمایتی خود فوج کے اندر بھی تھے ان سب کی طاقت کی ملکیت ریٹائرڈ ڈی جی آئی ایس آئی کے پاس تھی ۔لندن میں گولڈ سمتھ خاندان کی طرف سے جو فنڈز نواز شریف کے گھر کے باہر مظاہروں اور سوشل میڈیا کیلئے مختص تھے اسکا بینفشری بھی اصل میں فیض حمید ہی تھا کہ تحریک انصاف کا سربراہ عمران خان دونوں ایک ہی پیج پر تھے ۔
ڈائریکٹ کمیشن اور کلٹ فالونگ کی وجہ سے اس انفراسٹرکچر نے بڑا داؤ کھیل دیا اور نو مئی کو فوج میں بغاوت کی کوشش کر ڈالی ۔فوج نے چین آف کمانڈ کے موثر نظام کی وجہ سے بغاوت پر قابو پا لیا ۔چھ آٹھ ماہ لگے بتدریج فوج میں آپریشن کلین اپ کر لیا اور پھر نو مئی کے اصل کرداروں پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ۔
ناکامی کا کوئی باپ نہیں ہوتا ۔2018 میں دشمن قوتوں کو جو ووٹ کی طاقت سے شکست دی تھی اس نے پاکستان کو نادہندہ کرا دیا ۔کشمیر بھی گیا اور ایٹمی اثاثوں کے متعلق باتیں شروع ہو گئی تھیں ۔
جو تجربہ کیا تھا وہ تو ناکام ہو گیا لیکن جن لوگوں اور قوتوں نے اس تندور میں اپنی روٹیاں لگانا شروع کر دیں انہیں اب جواب دینا ہے ۔ہمیں کوئی حیرت نہیں ہو گی اگر کل جنرل باجوہ کا بھی کورٹ مارشل شروع ہو جائے کہ سائفر سے لے کر نو مئی تک سب کچھ پاکستان کی سلامتی کے خلاف تھا اور جو بھی اس کے سہولت کار تھے انہیں جواب دینا ہی ہو گا ۔بھلے جنرل باجوہ ہوں یا ثاقب نثار ،بنڈیال یا کوئی حاضر سروس کالے بھونڈ ۔
فوج بہت طاقتور ہوتی ہے اور پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسوں کی ستتر سال سے ملکیت رکھنے والے ڈسپلنڈ چین آف کمانڈ سے بندھی فوج تو بہت زیادہ طاقتور ہے ۔اس فوج کے ساتھ آنکھ مچولی نہیں کھیلی جا سکتی ۔کوئی پالتو جج یا ہائی برڈ نظام انصاف فوج کو چیلنج نہیں کر سکتا ۔جس فوج نے اپنے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا کورٹ مارشل شروع کر دیا اس کے متعلق اگر کسی جج کو غلط فہمی تھی تو چھٹیوں کے بعد اگر واپس آگئے تو وہ غلط فہمی دور کر دی جائے گی ۔
یہ فراڈ مزید نہیں چل سکتا کہ خفیہ ایجنسیوں کی فون ٹیپنگ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے یا چھ جج خط لکھ ماریں خفیہ ایجنسیاں ہمیں خوفزدہ کر رہی ہیں ۔جب آپکی ڈگری جعلی ہو ۔جب آپ کے پاس امریکی گرین کارڈ ہو ،جب آپ اپنی پسند کے سرکاری گھر لینے کیلئے ہاؤسنگ کے اعلی افسران کو اپنے دفتر بلا کر دھمکاتے ہوں تو پھر قانون ،انصاف اور آئین کا ڈرامہ آپ پر جچتا نہیں ہے ۔
محفل موسیقی شروع ہو چکی ہے جلد آپ بھی تقریب میں بلائے جائیں گے اور گانے سنوائے جائیں گے ۔
واپس کریں