اظہر سید
مدت ملازمت میں توسیع کیلئےجنرل باجوہ جب سرکاری مرسلہ کی نوک پلک درست کرانے بنفس نفیس جب سرکاری دفاتر پہنچ جاتا تھا دل میں وسوسے پیدا ہوتے تھے ایسا شخص کسی پروفیشنل فورس کا مزید سربراہ رہ کر فورس اور ریاست کو اور کتنا نقصان پہنچائے گا ۔عمران خان کے دور میں ریاست تیزی سے نادہندہ ہونے لگی زمہ داروں کو پتہ چل گیا غلطی ہو گئی ہے ۔زمہ داروں نے جب بھی سمجھانے کی ڈرانے کی کوشش کی عمران خان اسی زعم میں رہتا "ان کے پاس میرے علاؤہ کوئی چوائس نہیں" اور یہی بات تسلسل سے سرکاری اجلاسوں میں بھی پارٹی راہنماؤں اور وزرا کو بتاتا ۔
فورس کے بڑوں نے جب غلطی سدھارنے کا فیصلہ کر لیا تو اس پر عملدرامد کے دوران جنرل باجوہ نے بے ایمانی کی اور اس بدنیتی نے فوج اور ریاست کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔
جو کام آج عاصم منیر کی سربراہی میں فوج کرنے جا رہی ہے وہی کام جنرل باجوہ بھی کر سکتے تھے ۔ جنرل باجوہ اگر اپنے ادارے کے فیصلے پر خلوص کے ساتھ عمل کراتے تو پاکستان کے جو حالات آج ہیں شائد نہ ہوتے ۔
جنرل فیض حمید پر ساری زمہ داری ڈال دینا کہ "مجھے بتائے بغیر کرتا تھا" جان نہیں چھوٹ سکتی ۔ادارہ کا سسٹم جب بروقت اطلاع دے دیتا تو تو پھر بھی ایکشن نہ لیا جانا بد نیتی،خود غرضی اور لالچ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔کچھ سخت لفظ استعمال کریں تو اسے فوج دشمنی اور ملک دشمنی کہا جا سکتا ہے ۔
جو وزیراعظم مرضی کے بغیر سانس نہ لیتا ہو اور مرضی سے کوئی سفیر نہ لگا سکے یہ مشہور کرانا بشری بی بی کی کرپشن پکڑنے پر وزیراعظم نے اپنے اختیارات کے تحت جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے تبدیل کیا فراڈ اور دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
عاصم منیر کو پوری فوج جانتی تھی اور چیف باجوہ بھی جانتا تھا اسی لئے بشری بی بی کی کرپشن پکڑنے کے بہانے جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی میں اپنا بندہ بٹھا لیا ۔
جنرل باجوہ چونکہ اچھی طرح جنرل عاصم منیر سے واقف تھا اس لئے چیف بننے سے روکنے کیلئے وہ سب کچھ کیا جو ممکن تھا ۔نواز شریف سے منت کی ،مارشل لا لگانے کی دھمکی دی ،تین یا چھ ماہ توسیع کا پانسا پھینکا تاکہ عاصم منیر ریٹائرڈ ہو جائے لیکن ساری تدبیریں ناکام ہو گئیں ۔
عاصم منیر کیلئے بہت آسان تھا چین آف کمانڈ کے مزے اڑاتا۔ جو چلتا ہے باجوہ کی طرح چلنے دیتا ۔اثاثوں میں اضافہ کرتا اور پھر ریٹائرڈ ہو کر کہتا"بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست"
پتہ نہیں پاکستان موجودہ بحران سے بچ نکلتا ہے یا نہیں لیکن کم از کم فوج کی موجودہ قیادت نے ایک متوازی انفراسٹرکچر توڑنے کی کوشش تو شروع کر دی ہے ۔
فوج نے تو فیصلہ کیا تھا عمران خان کی شکل میں بلنڈر ہو گیا ہے اسے درست کیا جائے گا تو پھر پرویز الٰہی کے اس اعتراف کو کہاں رکھیں گے "جنرل باجوہ نے ہمیں کہا تھا پنجاب حکومت میں تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کی حمائت کرو ۔ تین ججوں نے جو آئین ری رائٹ کر کے حمزہ شہباز کی صوبائی حکومت ختم کی اسے کہاں رکھا جائے گا ۔
شہباز شریف کا بازو مڑوڑ کر جو جج سپریم کورٹ میں بٹھائے وہ ادارے کا فیصلہ تو ہر گز نہیں بلکہ مستقبل میں خود کو بچانے کا مکروہ منصوبہ تھا۔
جنرل باجوہ کی آنکھوں کے سامنے سارا انفراسٹرکچر قائم رہا لیکن تحریک عدم اعتماد کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ۔یہ اصل میں بدنیتی تھی عمران خان سائفر کے جھوٹ پر 60 سے زیادہ جلسے کر گیا ۔فوج کے خلاف ایک منظم بیانیہ بنا گیا ۔پشاور سے لانگ مارچ کرنے اسلام آباد پہنچ گیا اور پھر اطمینان سے واپس چلا گیا ۔ اپنے بٹھائے سپریم کورٹ کے بنڈیالی ،،مظاہری ،منیبی اور اعجازی اسے ریلیف دیتے رہے اور وہ ڈھرلے سے فوج کے خلاف منظم پراپیگنڈہ مہم منظم کرتا رہا جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج خاموش رہی کہ چین آف کمانڈ کی پابند تھی اور ہمیشہ ہوتی ہے ۔
جو کام آج فوج کر رہی ہے وہی کام فوج جنرل باجوہ کے دور میں بھی کر سکتی تھی لیکن نہیں کیا ۔
کھیل میں اب عالمی کھلاڑی شامل ہو چکے ہیں ۔موجودہ چین آف کمانڈ ملک اور فوج بچانے کیلئے چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے ۔ اللہ کرے ریاست کے اندر جو ایک متوازی انفراسٹرکچر قائم ہو چکا ہے وہ توڑ دیا جائے ۔ابھی فوج اپنے اندر صفائی کر رہی ہے لیکن وقت بہت کم ہے ۔امید ہے چند دنوں میں صفائی کا عمل نظام انصاف تک پہنچ جائے گا ۔
ہمیں لگتا ہے جس طرح جنرل فیض سے جوابات مانگے جا رہے ہیں جنرل باجوہ سے بھی مانگے جائیں گے ۔معاملہ بہت بڑا ہے اور سابق چیف سے سوالات کرنا ہی پڑیں گے ۔
واپس کریں