اظہر سید
پاکستان کی تاریخ میں جس طرح تحریک انصاف اور ججوں نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے سینگ اڑائے حیرت انگیز تھا ۔مشرقی پاکستان میں مذاحمت بنگالیوں تک محدود تھی لیکن موجودہ مذاحمت کراس دی بورڈ تھی جس میں تحریک انصاف کے ساتھ سوشل میڈیا اور نظام انصاف کے سابق پالتو بھی شامل ہو گئے ۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کیسے ممکن ہے ؟ جس ملک میں جنرل ایوب سے جنرل باجوہ تک اسٹیبلشمنٹ ریاست کی داخلہ اور خارجہ پالیسوں کی ملکیت کے ساتھ تمام وسائل پر بھی مکمل گرفت رکھتی ہو وہاں اس کراس دی بورڈ مذاحمت کا جواز تلاش کرنا مشکل تھا ۔
جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد معاملات سمجھ میں آنے لگے ہیں ۔مذاحمت کا بہت بڑا انفراسٹرکچر ہے جسے اندر اور باہر سے حوصلہ کمک اور لائین مل رہی تھی اور مل رہی ہے ۔فوج بہت طاقتور ہوتی ہے ۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی اور ریاست پر ملکیت برقرار رکھنے کا بیش بہا تجربہ ہے۔اس طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو اندرونی اور بیرونی وسائل سے شکست دینا ممکن نہیں ۔کوئی بیرونی طاقت مشرقی پاکستان کی طرح حملہ نہیں کر سکتی اور کوئی اندرونی طاقت قومی اتحاد کے نام پر ہرا نہیں سکتی ۔
اسٹیبلشمنٹ کو شکست دینے کیلئے صرف معاشی نادہندگی واحد ہتھیار ہے یا پھر اس وقت مارشل لا کے زریعے معاشی مشکلات کا شکار ملک میں فوج کو ریاست کا اجتماعی قومی ولن بنانا ممکن ہے ۔
ججوں اور سوشل میڈیا کے زریعے جو بیانیہ تشکیل دیا گیا اس کا واحد مقصد اور ہدف اسٹیبلشمنٹ ہی تھی اور ہے ۔
صرف جنرل فیض حمید گرفتار نہیں ہوا اس سے پہلے تین لیفٹینٹ جنرل کور کمانڈر لاہور ،پشاور اور منگلا بھی تادیبی کاروائی کا نشانہ بنے ہیں ۔کور کمانڈر کوئٹہ آصف غفور کو بھی تادیب کا نشانہ بننے والے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا جن میں بے شمار چھوٹے افسران جن میں میجر جنرل اور بریگیڈیر سے لے کر میجر تک کے بہت سارے افسران بھی شامل ہیں ۔فیض حمید کے ساتھ 50 سے زیادہ مزید لوگ بھی گرفتار ہوئے ہیں اور ڈی بریفنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔
اب یہ بات حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے نظام انصاف میں جو مذاحمت ہو رہی تھی اس کے پیچھے اندرونی حمایت اور بیرونی معاونت شامل تھی ۔
جنرل کیانی کے ڈی جی آئی کے دنوں میں جنرل مشرف کے خلاف نظام انصاف کی مذاحمت اس مذاحمت سے مختلف ہے جو جنرل ندیم انجم کی ڈی جی آئی کے دوران جنرل عاصم منیر کے خلاف ہو رہی ہے ۔جنرل کیانی کے دور کی مذاحمت کو فوج کی حمایت حاصل تھی کہ وہ جنرل ضیا کی طرح بوجھ بن گیا تھا لیکن جنرل عاصم منیر کے خلاف مذاحمت ہشت پہلو ہے۔کچھ کو ڈائریکٹ کمیشن والے چیف کی تکلیف تھی تو کچھ ماضی کے اثاثے اور ففتھ جنریشن وار کے اسیر تھے ۔
نظام انصاف میں مذاحمت بھی ہشت پہلو ہے آئین اور قانون کا پرچار کرنے والے کچھ سابقہ پالتو جج اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی مائنڈ سیٹ سے طاقت حاصل کر رہے تھے تو کچھ پاکستان میں افراتفری پیدا کر کے نادہندہ کرانے کے چکر میں تھے اور ہیں ۔
اسٹیبلشمنٹ کا بطور ادارہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کو گرفتار کرنا بہت بڑا فیصلہ ہے اور یہ اتنا بڑا فیصلہ ہے کل سابق چیف جنرل باجوہ کی گرفتاری بھی ممکن ہے ۔
یہ ایک پیغام ہے نظام انصاف والوں کیلئے اور اندرونی مذاحمت کاروں کیلئے بھی ۔
پاکستان کے جج ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی بندوق سے بھٹو ،جونیجو ،بینظیر بھٹو ،گیلانی اور نواز شریف کا شکار کرتے آئے ہیں ۔اب ان کے ہاتھوں میں اسٹیبلشمنٹ کی بندوق نہیں ہے ۔ یہ نوسر باز کو ریلیف دلا سکیں گے نہ موجودہ حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈال سکیں گے ۔
یہ مستقبل کا چیف جسٹس جو بڑکیں مارتا ہے آٹھ ججوں کا فیصلہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں یہ ساری تاریخ سے اچھی طرح واقف ہے کس طرح مارشل لا میں آئین اور قانون کی بتی پر پاکستانی جج خود مٹی کا تیل لگا کر غیر آئینی اور غیر قانونی فوجی حکومتوں کو جواز دیتے تھے اور اپنی آئین اور قانون کی قبض دور کرتے تھے ۔
شاعر پر جب اس شعر کی آمد ہوئی"یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں"اس کے سامنے یقینی طور پر پاکستانی جج تھے ۔
یقینی طور پر بہت مشکلات ہیں ،نادہندگی کے خطرات کا سامنا ہے لیکن طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا پسپائی کا کوئی ارادہ نہیں ۔طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا اعلان کر کے سب کو "شٹ اپ" کال دی ہے ۔
فوج سے جمہوریت چھیننے کا یہ وقت درست نہیں ہے ۔اب اگر کوئی جمہوریت کے جادوئی لفظ کا دھوکہ دے کر مذاحمت کر رہا ہے تو وہ فوج کو ولن بنا کر ملک توڑنے کی سازش کا ایک کردار ہے ۔
جمہوریت حالات کے جبر اور واقعات کے تسلسل سے آتی ہے اور اس میں تین چار دہائیاں لگ جاتی ہیں ۔شارٹ کٹ جمہوریت کے دھوکہ میں مدد دینے والے بیرونی کردار ایٹمی اثاثے اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کر کے چین کا راستہ تو روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کو ایک مہذب جمہوری ریاست بنانے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ۔
ہم فوج کی سیاست میں مداخلت کے ناقد ہیں لیکن اس وقت جمہوریت سے زیادہ ریاست بچانے کا سوال اہم ہے ۔پاکستان ہماری شناخت ہے اور ہمارا شناختی کارڈ ہمارا فخر ہے ۔مہاجر اور غلام بننے سے زیادہ بہتر آزاد رہنا ہے ۔غلام ہیں تو اپنی فوج کے ہیں وار لارڈ کی دنیا میں تو نہیں ہیں۔
ہمیں بطور پاکستانی اس وقت فوج کی مکمل حمایت کرنا چاہئے اس کے علاؤہ کوئی آپشن موجود نہیں ۔
واپس کریں