اظہر سید
نادہندگی کا شکار پاکستان کے ججوں نے سوچا اسٹیبلشمنٹ کے دانت اور ناخن نکل چکے ہیں آگے بڑھ کر ریاست کی ملکیت سنبھالتےہیں۔ اعلی عدالتوں میں اس وقت جتنے بھی جج ہیں 95 فیصد جنرل باجوہ کے دور سے اسٹیبلشمنٹ کے لگائے ہوئے وہ پودے ہیں جنہیں بڑی مہارت سے اپنے سابقہ اثاثے عمران خان کے تحفظ کیلئے اعلی عدالتوں میں بٹھایا گیا تھا ۔یہ جج ایک طرف آصف علی زرداری اور نواز شریف کا مکو ٹھپنے کیلئے بٹھائے گئے تھے دوسری طرف ان کا کام اپنے اثاثے یعنی نوسر باز کو تحفظ دینا تھا۔دوسرے لفظوں میں یہ سارے پالتو تھے ۔
بھلے انکی ڈگریاں جعلی ہوں ۔ بیٹی معصوم نوجوانوں کو گاڑی تلے کچل کر قتل کر دے ۔ زیادہ دیر تک ریاست کے اعلی ترین عہدے کا مزے لینے کیلئے اپنی عمر کم کر لیں کہ چھوٹے بھائی سے بھی چھوٹے ہو جائیں ۔جنرل مشرف کے صوبائی وزیر رہ چکے ہوں ۔ غیر ملکی شہریت رکھتے ہوں نظر انداز کر دیا جاتا تھا ۔ انکی خوبی ایک ہی تھی پالتو تھے ۔
انہیں آئین میں ترمیم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا حمزہ شہباز کی حکومت حتم کر دی جاتی۔
انہیں قاسم سوری کے دھاندلی پر پردہ ڈالنے کیلئے لامحدود حکم امتناعی جاری کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ۔
انہیں اشارہ کیا جاتا رات کو عدالت کھول کر بیٹھ جاتے ۔جونئیر ججوں کو اہل ججوں کا حق مار کر اعلی عدالتوں میں بٹھا دیا جاتا ۔
مسلہ اس وقت شروع ہوا جب ان ججوں نے مالکوں کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں ۔انہوں نے ریاست کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ۔
دنیا کی کوئی ریاست اپنی خفیہ ایجنسیوں پر پابندیاں نہیں لگاتی معاملات بند کمروں میں بیٹھ کر طے کر لئے جاتے ہیں۔یہاں مشکوک غیر ملکی شہریت کے حامل ججوں نے خفیہ ایجنسیوں پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں ۔
ججوں نے وقت کے دھارے کو درستگی سے نہیں دیکھا ۔ججوں کی مشترکہ سوچ تھی فوج دیوار کے ساتھ لگ گئی ہے۔ نادہندگی کی لٹکتی تلوار میں مارشل لا لگانے کا فیصلہ ممکن نہیں۔
خیال تھا مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے حکومت بہت کمزور ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔
خیال تھا چھ ججوں کے خفیہ ایجنسیوں کے خلاف خط کے ایڈونچر ،سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ ۔پی ٹی ایم ،بلوچ عسکریت پسندی ، مذاحمت اور عوامی رائے عامہ کی وجہ سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے دانت اور ناخن نکل چکے ہیں ۔
ججوں نے عمران خان کو جس طرح ریلیف دئے وہ اصل میں عمران خان کو ریلیف نہیں تھا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔
نو مئی کے ملزمان کو مسلسل ضمانتیں دے کر فوج کو چھیڑا جا رہا تھا ۔
جج غلطی کر گئے ہیں ۔ریاست نے ردعمل دینا شروع کر دیا ہے ۔حمزہ شہباز کی حکومت میں آئین ری رائٹ کیا مالکوں کی مرضی شامل تھی ۔اٹھ ججوں نے جو آئین ری رائٹ کیا ہے یہ ریاست کی مرضی نہیں تھی ۔پالتو کو ایک ٹانگ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے دوسری ٹانگ اٹھانے سے گرنا سو فیصد ہوتا ہے ۔ججوں نے عمران خان کو نہ مانگا ریلیف دے کر دونوں ٹانگیں اٹھا دی تھیں گرنا تو ہے ہی ۔
ریاست نے آٹھ ججوں کے فیصلے کے بعد ردعمل ظاہر کرنا شروع کیا تو جس لاڈلے کو دکھا کر جج ریلیف دے رہے تھا وہ لاڈلا ہی بھاگ گیا ۔تین دن میں مسلسل معافیاں، ترلے اور واسطے آ رہے ہیں ۔
کبھی فوج سے مذاکرات کی خواہش اور کبھی نواز شریف اور زرداری سے بات چیت کیلئے محمود اچکزئی ایسے وچولے کو بیچ میں ڈالنے کا اعلان ۔
آٹھ جج اب اکیلئے کھڑے ہیں ۔وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ہے ۔
پارلیمنٹ نے آٹھ ججوں کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھ کر نئی قانون سازی کا عمل شروع کر دیا ہے ۔
دو ججوں نے اختلافی نوٹ لکھ دیا ہے ۔
آٹھ اس قدر ڈرے بیٹھے ہیں پندرہ دن کے آئینی مدت کے دوران تفصیلی فیصلہ لکھنے کی جرات نہیں کی بلکہ چھٹیوں کا بہانہ بنا کر فرار ہو گئے ۔
ان لوگوں نے دیوار پر لکھی تحریر پڑھنے میں غلطی کر لی ہے ۔جس اثاثہ کو مالکوں نے غلطی تسلیم کر کے غلطی کا اعتراف کر لیا یہ اس غلطی کو استعمال کر کے ریاست کی ملکیت سنبھالنے کے چکر میں تھے ۔
دیوار پر لکھا ہوا ہے پالتو جج یہ لڑائی ہار گئے ہیں کیونکہ جس نوسر باز پر یہ داؤ لگائے بیٹھے تھے وہ نوسر باز تھا ۔ریاست نے پتھر اٹھایا ہی تھا دم ٹانگوں میں دبا کر بھاگ گیا ہے اور مسلسل بھاگ رہا ہے ۔
واپس کریں