اظہر سید
سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس 29 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ کرے گا۔ ساری زندگی رپورٹنگ کرنے کے بعد ہمارے پاس دلائل ہیں ارشد شریف کے قاتلوں کے متعلق ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کس منتخب وزیراعظم کو پالتو ججوں یا مارشل لا کے زریعے فارغ کرنے کی بجائے آئینی طریقہ سے فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ فیصلہ عمران خان کے متعلق ہوا تھا ۔ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ملک نادہندہ کرانے پر مالکوں نے اپنے محنت سے بنائے اثاثے سے نجات کا فیصلہ کیا اور اس بحث میں بھی نہیں جاتے کہ تحریک عدم اعتماد پر رضامند کرنے کیلئے لندن میں میاں نواز شریف کی ہی منت ترلہ نہیں کیا گیا آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کو بھی میاں نواز شریف کو منانے کیلئے راضی کیا گیا ۔
مسلہ اس وقت کھڑا ہوا جب تحریک عدم اعتماد کو امریکی مداخلت اور سائفر بتا کر مسترد کر دیا گیا ۔ اسمبلیاں توڑنے کی سفارش کر دی گئی اور صدر نے اسمبلیاں توڑنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ۔سپریم کورٹ کے فوری نوٹس اور تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کو غیر آئینی قرار دینے پر مالکوں کی اپنے اثاثہ سے بظاہر وقتی طور پر جان بخشی ہوئی لیکن اصل میں ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز بھی ہو گیا ۔ارشد شریف اسی محاذ آرائی کا ایک کردار بننے پر بھینٹ چڑھا ۔
تحریک عدم اعتماد والے دن جب اسے مسترد کیا گیا اور عمران خان کو فارغ کروایا گیا تو ریاست کا انتظام کسی نے تو چلانا تھا ۔یہ کوئی خالہ جی کا گھر تو نہیں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر آئینی طور پر مسترد کر دی جائے اور ایوان کا اعتماد کھو دینے والا وزیراعظم اور اس کے چماٹ ملک کا انتظام بھی چلاتے رہیں ۔اس رات ریاست کا نظام جنرل باجوہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا سسٹم چلا رہا تھا ۔ارشد شریف اسی سسٹم چلانے والے نظام پر حملہ کر رہا تھا اور بار بار کر رہا تھا اسے غیر آئینی قرار دے رہا تھا ۔
دنیا کی ہر فوج اپنے سٹرکچر میں چین آف کمانڈ پر حملہ برداشت نہیں کرتی ۔ ارشد شریف نے جو کردار آج بھی عمران خان کی حمائت کر رہے ہیں اور فوج کو ڈیجیٹل اور عدالتی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں کی ایما پر چین آف کمانڈ پر حملہ کیا تھا ۔
ارشد شریف نے پے درپے پروگرام کئے "وہ کون تھا جو تحریک عدم اعتماد والے دن ریاست کا نظام چلا رہا تھا" یہ براہ راست فوج کے سربراہ پر حملہ تھا ۔فوج کا سربراہ جنرل باجوہ ،ضیا ،مشرف نامی بندے نہیں ہوتے بلکہ سربراہ چیف کہلاتا ہے اور چیف جس طرف دیکھے فوج اسی طرف دیکھتی ہے ۔
ارشد شریف خود فوج کا پالتو تھا اور مالکوں کے اشارے پر ہی لندن فلیٹ کے متعلق پناما سماعت کے دوران ہر روز پروگرام کرتا تھا اور مال پانی بناتا تھا ۔
"وہ کون تھا" پروگرام سسٹم میں موجود نہیں تھا تو اس پالتو صحافی کو کس نے اس راہ پر لگایا اس بات پر جب تحقیق شروع ہوئی ارشد شریف کو پالتو کی راہ سے ہٹانے والوں نے فرار کروا دیا ۔
سسٹم نے اپنے باغی کی تفتیش شروع کی تو ارشد شریف کا دوسرا ساتھی صابر شاکر بھی فرار کروا دیا گیا ۔وہ تمام باغی اینکرز یا ڈبل ایجنٹ بننے والے شاہین صہبائی،معید پیر زادہ ،وجاہت ایس خان سارے ملک سے بھگا دیے گئے ۔
ان سب پالتووں کو ڈبل ایجنٹ بنانے والوں کے متعلق تفتیش اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی تھی جب تک اے آر وائی کے مالک کی ڈی بریفنگ نہ کی جاتی لیکن وہ بھی ایک ہی کائیاں آدمی تھا اس نے پاکستان آنے سے ہی انکار کر دیا ۔
چیف کو نشانہ بنایا گیا تھا اور سارے پالتو بھاگ گئے تھے ۔تفتیش تو ہونا تھی اور سسٹم نے اصل کرداروں تک پہنچنا تھا تاکہ سسٹم کے اندر اور باہر موجود نوسر باز کے حمایتیوں کا سراغ لگایا جا سکے ۔
ارشد شریف اچھا بچہ تھا ۔اچھا پالتو تھا اور سسٹم میں اس کے ہمدرد بھی موجود تھے ۔ارشد شریف سے سسٹم نے رابطہ کیا ۔اسے یقین دہانیاں کرائیں ۔ارشد شریف وطن واپسی پر رضامند ہو گیا ۔ارشد شریف وطن واپس آجاتا سب پھڑے جاتے ۔وہ بھی جنہوں نے "وہ کون تھا" نامی پروگرام کروائے ۔
وہ کردار جو ارشد شریف سے پروگرام کروا رہے تھے انہیں جیسے ہی ارشد شریف کی وطن واپسی کا پتہ چلا وہ متحرک ہو گئے ۔اسے پہلے کینیا بھجوایا اور وہیں پر اس کا کام تمام کر دیا ۔
ارشد شریف کو آئی ایس آئی کینیا کی پولیس پر اثر رسوخ استعمال کر کے قتل نہیں کروا سکتی البتہ کسی طاقتور ملک کی طاقتور ایجنسی ضرور قتل کروا سکتی ہے ۔
ارشد شریف ایک مہرہ تھا پہلے پاکستانی مالکوں کے ہاتھوں استمال ہوا پھر "وہ کون تھا" نامی پروگرام کے زریعے سی پیک مخالف قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو گیا اور اپنی جان گنوا بیٹھا ۔
ہدف پہلے بھی فوج تھی اور ہدف آج بھی فوج ہی ہے ۔پہلے چیف باجوہ تھا آج چیف جنرل عاصم منیر ہے ۔ہدف پہلے سی پیک تھا اور آج ہدف میں ایٹمی اثاثے بھی شامل ہو چکے ہیں۔
طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ وکٹ کے دونوں طرف کامیابی سے کھیلتی آئی ہے چاہئے جنرل ضیا کے دور میں ایٹمی پروگرام پر پیش رفت ہو یا جنرل مشرف کے دور میں گڈ اور بیڈ طالبان ۔اس مرتبہ مشکل یہ ہوئی ہے عمران خان نامی اثاثے نے ساڑھے تین سال کے دوران پاکستانی روپیہ کی قیمت ایک سو چھ روپیہ سے بڑھا کر تین سو روپیہ تک پہنچا دی تھی اور ریاست کے اندرونی اور بیرونی قرضے کل جی ڈی پی سے بڑھا کر ملک کو ادائیگیوں میں نادہندہ کرا دیا تھا ۔
دوسرے لفظوں میں وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا مشکل بنا دیا تھا ۔جب تک ہوش آیا اور اس سے نجات حاصل کی پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا تھا ۔اب بھگتنے کی باری ہے طاقتور اسٹیبلشمنٹ ،سیاستدان اور عوام سب بھگت رہے ہیں ۔دیکھتے ہیں ریاست بچ پاتی ہے یا نہیں ۔
سپریم کورٹ بھلے جتنی سماعتیں کر لے ارشد شریف کے قاتلوں تک پہنچ نہیں سکتی ۔اگلوں نے ارشد شریف کو ہی نہیں مارا اس کا لیپ ٹاپ بھی غائب کروا دیا ۔اب یہ لیپ ٹاپ عدالت کیسے ریکور کروائے گی اور کس سے کروائے گی مراد سعید سے یا کینیائی پولیس سے ؟
واپس کریں