دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ضائع کردہ مواقع ۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
ایٹمی دھماکوں کے بعد ملکی سلامتی محفوظ ہو گئی تھی ۔بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کی جماعت کے وزیراعظم واجپائی نے مینار پاکستان میں پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کر کے ایک تاریخی موقع فراہم کیا تھا دونوں ملک نفرت کا کاروبار چھوڑ کر اپنے عوام کو ریلیف فراہم کریں اور معاشی طور پر مستحکم ہو جائیں۔ یہ تاریخی موقع تھا دفاعی بجٹ کم کر کے بھارت سے دوستی کی بنیاد رکھ کر دونوں ملک پراکسیوں سے جان چھڑا لیں لیکن یہ موقع کارگل نے برباد کر دیا ۔
دوسرا اور آخری موقع سی پیک پر چینی سرمایہ کاری سے شروع ہوا تھا ۔چینی اپنی صنعتیں پاکستان منتقل کرنا چاہتے تھے ۔سی پیک روٹ پر انڈسٹریل اسٹیٹس کا تعین کر لیا گیا تھا ۔ڈالر ایک سو چھ روپیہ اور بجلی کی قیمت دس روپیہ یونٹ تھی ۔چینیوں کے ساتھ دنیا بھر کے سرمایہ کار ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی جھتوں کی صورت میں پاکستان آنا شروع ہو گئی تھیں لیکن یہ آخری موقع بھی دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینے والے چھ سات جنرلوں اور ان کے ساتھ ملے ہوئے ثاقب نثاروں،کھوسوں،گلزاری لالوں اور بنڈیالوں نے ایک نوسر باز کو مسلط کر کے ضائع کر دیا ۔
اب نتایج بھگتنے ہیں اور پتہ نہیں نادہندہ ریاست میں نتایج بھگتنے کی طاقت بچی ہے کہ نہیں۔
اس سے بھی پہلے محترمہ بینظیر بھٹو نے سارک اکنامک یونین کے تصور سے جنوبی ایشیا کو نفرت سے محبت اور معیشت میں بدلنے کی کوشش کی ۔طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا خوف دور کرنے کیلئے راجیو گاندھی سے ایٹمی تنصیبات کے تبادلوں کا معاہدہ بھی کر لیا ۔محترمہ بینظیر بھٹو کو امریکی سنڈی اور سیکورٹی رسک قرار دینے والوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی اور محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ہی ختم کر دی گئی ۔
کشمیر ایک کارپوریٹ اثاثہ امریکیوں کیلئے تو تھا ہی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی تھا ۔
یہاں بھی دو بہت بڑے بلنڈر کئے ۔چین بھارت جنگ کے دوران چینیوں 1962 میں مقبوضہ کشمیر لینے کیلئے جنرل ایوب کو موقع سے فائدہ اٹھانے کے اشارے کئے لیکن "فرینڈز آر ناٹ ماسٹر"لکھنے والے نے یہ موقع برباد کر دیا ۔
سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کے دوران دنیا بھر سے جب ڈالروں کی بارش ہوئی کشمیر کی تحریک آزادی کو بھی گویا آگ لگ گئی ۔انیس سو اسی کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی یہ آگ اتنی پھیل گئی بھارتی وزیراعظم نرسیما راؤ نے اعلان کر دیا کشمیریوں کو اتنا کچھ دیں گے وہ سوچ بھی نہیں سکتے لیکن جنرل ضیا الحق نے یہ موقع ضائع کر دیا اور مجاہدین کی تنظیموں نے سب کچھ مسترد کر دیا ۔
اب افغان جنگ بھی ختم ہو گئی اور مقبوضہ کشمیر بھی ہاتھ سے گیا ۔ بھارتیوں کو "در اندازی" نہ ہونے کی یقین دہانی کرانے والوں نے پہلے باڑ لگانے کی اجازت دی اور پھر جب بھارتیوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کر دی تو یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گئے "ٹینکوں میں پٹرول ڈالنے کے پیسے نہیں ہیں "
اب ہاتھوں میں کچھ نہیں ۔افغان جنگ ختم ہو چکی ہے اور کابل کے ہوٹل میں چائے پی کر افغان جیلوں میں بند طالبعلموں کو واپس لا کر بنوں کینٹ پر حملوں سے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو رہا ہے ۔
اب مقبوضہ کشمیر بھی نہیں جہاں تحریک آزادی کی "اصولی"حمائت کے پاکستانی موقف سے مغرب امریکی اشارے پر آنکھیں بند کر لیتا تھا ۔
اب ہمالیہ سے بلند دوستی والا چین بھی نہیں جسے بڑی محنت سے متنفر کیا ۔پالتو اینکروں سے رائے عامہ بنوائی چینی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے ان کے اعضا فروخت کر دیتے ہیں ۔
چینیوں کو ناراض کر لیا ۔بھارتیوں کو ناراض کرنے میں ہمیشہ من چاہے اقدامات کئے ۔
افغانی طالبعلم جنہیں پلیٹ میں رکھ کر حکومت دلائی اور کوئٹہ شوریٰ والوں کو پالتے رہے وہ بھی دشمن بنے بیٹھے ہیں ۔بھارتیوں اور امریکیوں سے پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔
مستحکم حکومت بن جاتی شائد بچ نکلنے کی تدبیر بن جاتی یہاں بھی نادہندہ معیشت اور کمزور ترین حکومت جس پر ایک طرف پالتو جج چھوڑ دئے ہیں دوسری طرف "ملک بچاؤ" کے نام پر "ٹیکسوں میں اضافہ کرو" کا بوجھ ڈال کر اسے عوام دشمن حکومت بنا دیا ہے ۔
اب بھگتنا ہے اور اس کا آغاز ہو چکا ہے ۔آزاد کشمیر کے احتجاج سے شروع ہونے والا سلسلہ بنوں دھرنہ تک پہنچ گیا ہے ۔خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرنے والے اور عام پاکستانی اتنے بے بس ہیں پوچھ بھی نہیں سکتے افغان جیلوں میں بند طالبعلموں کو پاکستان کیوں لائے ۔
امریکیوں نے چار دہائیوں میں چالیس سے پچاس ارب ڈالر کا اسلحہ مقبوضہ کشمیر کے نام پر بیچ دیا ۔اب نہ مقبوضہ کشمیر ہے اور نہ اسلحہ خریدنے کی سکت ۔اسلئے اب ہر گزرتے دن دعا کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ خصوصی کرم فرمائے اور خدا کے رازوں میں سے ایک راز پاکستان کی حفاظت کرے ۔
واپس کریں