دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھگتنا سب نے ہے ۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
عقلمند اسٹیبلشمنٹ نے کمال مہارت سے نوسر باز کے ناکام تجربہ کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر منتقل کر دیا لیکن داؤ الٹا پڑ گیا ۔ن لیگ نے احسان مندی کرتے ہوئے دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینے والوں کا بوجھ اٹھا تو لیا لیکن بات بنی نہیں۔ جب بیک وقت تین چار کشتیوں کی سواری کریں تو ناکامی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کو تلوار کی تیز سان پر رکھ لیا دوسری طرف نوسر باز کو بھٹو ،اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو ایسے انجام سے بھی اس اندیشہ سے محفوظ رکھا نواز شریف اور زرداری کہیں ملکیت سچ مچ ہی نہ چھین لیں۔
ن لیگ نے بوجھ تو اٹھا لیا ۔ ملکی معیشت کے تحفظ کیلئے سخت فیصلے بھی کر لئے لیکن عوامی غصے اور غضب سے خود کو بچا سکی اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہیرو نہ بنا سکی ۔
اب کوئی جائے پناہ نہیں اور بچ نکلنے کا راستہ بھی بظاہر موجود نہیں۔ نوسر باز کو دوبارہ حکومت دیتے ہیں تو بہت بڑے تضاد کے سامنے آن کھڑے ہونگے اور جس نادہندگی سے بچنے کیلئے نوسر باز سے نجات حاصل کی تھی وہ حقیقت بن جائے گی ۔
چینیوں کو جس مہارت اور وطن کی محبت سے سرشار ہو کر متنفر کیا تھا وہ سچائی برہنہ ناچ رہی ہے ۔چینی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔بھارتیوں سے دو طرفہ تجارت ایک اور راستہ ہے لیکن یہاں بھی فیصلہ بھارتیوں نے کرنا ہے ہم نے نہیں۔
اندرونی اور بیرونی قرضوں کا جو بوجھ ہے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔بائیس صنعتیں چلانے والی تعمیرات کا شعبہ کینسر زدہ ہو کر مر رہا ہے ۔بجلی اور پٹرول کی قیمت ۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کی قیمت ،بلند ترین شرح سود اور عمرانڈوز ججوں کے ہتھوڑے کی موجودگی میں سرمایہ کاری ممکن ہے اور نہ ہی کوئی صنعتی پیداوار ۔
اب بھگتنا ہے اور ہاتھوں سے لگائیں گرہیں دانتوں سے کھولنا ہیں ۔جو کچھ جنرل ایوب سے جنرل باجوہ تک کیا ان سب کے حساب کتاب کا وقت ہے ۔پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ۔معاشی بحالی نظر آتی ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا سابقہ وقار اور احترام ۔
صدیوں کی دانش سے بنا محاورہ "ناکامی کا کوئی باپ نہیں ہوتا" پاکستان کے حالات دیکھ کر اسکی صداقت پر پھر مہر لگ گئی ہے۔
واپس کریں