اظہر سید
سوشل میڈیا پر ایک مخلوق بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے جس کا پسندیدہ مشغلہ خواتین اور تعلیمی اداروں پر دشنام بھیجنا ہے ۔انکی ہر پوسٹ کی تان اس پر ٹوٹتی ہے پاکستانی جامعات اصل میں چکلے ہیں جہاں استمال شدہ کنڈوم گرے نظر آتے ہیں اور یہاں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین طوائفیں ہیں ۔دلیل انکی یہ ہے کنڈوم انہوں نے خود دیکھے ہیں ۔ یہ بچیوں کو بے راہ قرار دینے کیلئے اکثر ایسی تصاویر بھی پیش کرتے ہیں جس میں کسی جامعہ میں طلبا و طالبات اکھٹے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں جس لیڈی ڈاکٹر نے انکی والدہ کی مدد کر کے دنیا میں انکا آنا ممکن بنایا وہ مخلوط تعلیمی ادارے سے پڑھی تھی لیکن تھی طوائف ۔
ہمیں شرم آتی ہے اس طرح کی پوسٹوں پر بڑی تعداد میں تحسین کی ڈونگرے برستے ہیں ۔ہمیں نہیں خبر ان نکی سری والوں کی امی کسی تعلیمی ادارے میں پڑھی تھی یا ان پڑھ رہے کر اپنی عصمت بچانے میں کامیاب رہی تھی جہاں انہیں کنڈوم نظر آتے ہیں ۔ہمیں یہ بھی نہیں پتہ انکی بیٹی نری جاہل رہے گی یا پھر اسے یہ یونیورسٹی یا کالج تک پڑھنے کی اجازت ملے گی ۔ ہمیں تو انہیں مسلمان کہنے میں بھی شرم آتی ہے جسکی آسمانی کتاب کی پہلی آیت ہی
"پڑھ اپنے رب کے حکم سے" ہے ۔
ان غلیظ زہنیت والے لوگوں کے مطابق تمام اسلامی ممالک میں خواتین کی تعلیم انکے نظریات کے مطابق دینا چاہئے ورنہ تعلیمی ادارے چکلے اور پڑھنے والی لڑکیاں طوائفیں ہونگی ۔
جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کیلئے اور سوویت یونین کے خلاف امریکی لڑائی میں افرادی قوت فراہم کرنے کیلئے معاشرے میں اسلام کا جو ٹیکہ لگایا یہ نمونے اسی ٹیکے کی پیدوار ہیں ۔دنیا بھر کے مسلمانوں میں پاکستانی اسلام سب سے انوکھا ہے ۔جو قوانین اسلام کے تحفظ کیلئے اس ملک میں ہیں دنیا کے کسی اسلامی ملک میں نہیں ۔
کاش کوئی جادو کی چھڑی چلے اور معاشرہ اسے لوگوں سے پاک ہو جائے جو بغیر تحقیق کے صرف توہین مذہب کے الزام پر کسی بے گناہ کو سرعام قتل کر دیتے ہیں ۔ جس پڑھنے کا حکم خالق کائنات نے دیا ہے یہ غلیظ لوگ اس حکم کو اپنی مرضی کے اسلام کے ساتھ مشروط کرتے ہیں۔ جس دین کی حفاظت خود اللہ نے کرنے کا وعدہ کیا ہے یہ خدائی فوجدار بن کر اس دین کی حفاظت کے نام پر لوگوں کو سڑکوں پر قتل کرتے پھرتے ہیں ۔
جس نبی کا نام جسم و جاں میں لہو بن کر دوڑتا ہے یہ توہین رسالت کے الزام میں لکھوائی ایف آئی آر میں اس نبی کے متعلق اسے الفاظ لکھواتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
ہمیں یاد ہے جوانی میں سلمان رشدی کی کتاب کا اردو ترجمہ ہمارے پاس آیا ہم نے تین صفحات ہی پڑھے تھے اچانک ایسے جملے سامنے آئے ہم نے خوف سے کتاب بند کر دی اور پھر کبھی نہیں پڑھی یہ نبی کے جاں نثار نہ جانے کس طرح ایف آئی آر میں خوفناک اور دل ہلا دینے والے الفاظ اور جملے لکھوا دیتے ہیں۔
یہ زومبیز کا معاشرہ بن گیا ہے ۔جو مائنڈ سیٹ قبائلی علاقہ جات میں طالبات کے اسکول دھماکوں سے اڑتا ہے وہی مائنڈ سیٹ سوشل میڈیا پر خواتین کے تعلیمی اداروں کو چکلے بتا کر اسلام کی اپنے تئیں حفاظت کرتا ہے ۔یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو خود تو مغربی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتا ہے گوریوں سے معاشقے لڑاتا ہے ،انہیں عشقیہ خطوط لکھتا ہے اور شاعری میں قوم کو صلاح دیتا ہے
"اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہزیب کے انڈے ہیں گندے"
طنز کرتا ہے
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ"
سوشل میڈیا ان بندروں کے ہاتھ استرا لگ گیا ہے جہاں یہ اپنی زہنی غلاظت اگلتے نظر آتے ہیں ۔ مغربی تہذیب اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم فراہم کر کے دنیا بھلے جنت بنا لے لیکن جائے گی جہنم میں کہ کم عمر لڑکیاں بغیر شادی کے مائیں بن جاتی ہیں ۔ بقول انکے یورپ میں ہر لڑکی شادی سے پہلے عزت لٹوا چکی ہوتی ہے ۔
واپس کریں