دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میڈیکل امیجنگ۔تحریر۔۔۔۔یوسف حسین
No image انسان میں بیماری کی تشخیص اور جسم کے اندرونی اعضاء کی کارکردگی کو جاننے کے لیے مختلف طرح کے طریقے استعمال کر کے اعضاء کی تصاویر حاصل کرنا میڈیکل امیجنگ کہلاتا ہے۔نیچے کچھ طریقوں کو مختصر بیاں کیا گیا ہے۔ایکس رے۔ ایکس رے جسم کے اندرونی اعضاء کو دیکھنے کا ایک سستا اور آسان طریقہ ہے۔ اس عمل میں ایکس ریز کو جسم کے مخصوص حصے سے گزار کر ایک ایکس رے سینسٹیوفلم(فوٹو گرافک فلم) پر جسم کے اندرونی حصے کی تصویر لے لی جاتی ہے۔ جسم کے مختلف حصے مختلف مقدار میں ایکس ریز کو جذب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سینے کا ایکس رے لیتے وقت جو ایکس ریز سینے سے گزاری جاتی ہیں ان کو ہڈیاں، ڈینس ہونے کی وجہ سے، زیادہ جذب کرتی ہیں۔ اور سینے کے پیچھے پڑی ہوئی فوٹوگرافک فلم پر زیادہ ایکس ریز نہیں پہنچ پاتیں اور فوٹوگرافک فلم اس طرح سے تیار کی گئی ہوتی ہے کہ کم ایکس ریز والا حصہ سفید نظر آئے اسی لیے فلم پر ہڈیاں سفید سی نظر آتی ہیں۔
اس کے برعکس پھیپھڑے، خلاء ہونے کی وجہ سے، ان ایکس ریز کو زیادہ جذب نہیں کر پاتے۔ تو پھیپھرڑوں سے زیادہ ایکس ریز گزر کر فوٹو گرافک فلم پر پہنچتی ہیں اور فلم کا وہ حصہ ڈارک نظر آتا ہے۔ جیسے نیچے تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ اس سب میں فوٹوگرافک فلم کی کیمیکل کمپوزیشن کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔
کمپیوٹڈ ٹوموگرافی/سی ٹی سکین
اس ٹیکنیک میں بھی ایکس ریز کوہی استعمال کیا جاتا ہے۔ جسم کے جس حصے کا سی ٹی سکین کرنا ہو اس پر مختلف زاویوں سے ایکس ریز گزاری جاتی ہیں۔ کمپیوٹر کی مدد سے ان حصوں کی تصاویر بنتی ہیں۔ جسم کے اعضاء کا بہت ڈیٹیل میں مطالعہ کرنے کے لیے اس طریقے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جسم کے اندرونی اعضاء میں کینسر اور دل کی بیماریوں کی تشخیص کے لیے یہ طریقہ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
میگنیٹک ریزونینس امیجنگ
اس عمل کے دوران انسان کے جسم کو ایک بہت ہی طاقتور میگنیٹک فیلڈ میں رکھ کر اس میں سے ریڈیو ویوز کو گزارا جاتا ہے۔ ٹیکنولوجی کے استعمال سے حاصل ہونے والی اندرونی اعضاء کی تصاویر جسم میں موجود ٹیومرزکی نشاندہی کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ دماغ، جگر، گردے، مسکولر سسٹم وغیرہ میں ہونے والے مسائل کا پتا چلایا جاتا ہے۔
الٹراساونڈ
اس طریقے میں بہت زیادہ فریکوینسی والی ساؤنڈ ویوز جسم میں بھیجی جاتی ہیں جو ریفلیکٹ ہو کر جسم کے اندرونی حصوں کی معلومات سکرین پر دکھاتی ہیں۔ ماں کے پیٹ میں بے بی کو دیکھنے اور اس کی حالت کر پرکھنے کے لیے یہ طریقہ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جس کے اعضاء کی لوکیشن اور اور ان کے سائز کو چیک کرنے میں بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی/PET Scan
آپ نے ایٹم میں موجود نیگٹیو چارج والے الیکٹرون کا نام تو سنا ہو گا۔ اس الیکٹرون کا ایک اینٹی پارٹیکل ہوتا ہے جسے پوزیٹرون کہا جاتا ہے۔ پیٹ سکین میں جسم میں ایک ایسا مٹیریل داخل کیا جاتا ہے جس سے پوزیٹرونز نکلتے ہیں۔ وہ پوزیٹرونز جب جسم میں موجود الیکٹرونز سے ملتے ہیں تو دونوں فنا ہو کر گیماریز پیدا کرتے ہیں۔ وہ گیما ریز جسم سے باہر نکل کر جسم کے گرد موجود گیما کیمرے میں آ کر نا صرف جسم کے اندرونی اعضاء کی ساخت کے بارے میں معلومات دیتی ہیں بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس وقت جسم کا کونسا حصہ زیادہ ایکٹیو ہے۔ اس طریقے سے بیماریوں کی تشخیص تو ہوتی ہی ہے، لیکن ہم یہ بھی معلوم کر سکتے ہیں کہ مختلف کام کرنے کے دوران انسان کے دماغ کا کونسا سا حصہ زیادہ فعال ہوتا ہے اور کونسا کم۔
ریڈیو نیوکلئیائیڈ ئیڈسکیننگ
انجیکشن کے ذریعے جسم میں ریڈیوایکٹیو مٹیریل کو داخل کر دیا جاتا ہے جو جسم میں گیما ریز پیدا کرتا ہے۔ اور اوپر والے طریقے کی طرح گیما کیمرے کی مدد سے جسم کے اندرونی اعضاء کی تصاویر کمپیوٹر میں حاصل کر لی جاتی ہیں۔ جسم میں موجود ٹیومرز کی نشاندہی کے لیے یہ ٹیکنیک بہت استعمال کی جاتی ہے۔
کیپسول اینڈوسکوپی
اس میں مریض کو ایک کیپسول کھلایا جاتا ہے جس میں کیمرہ، ایل ای ڈی لائٹیس، مائیکرو چپ اور بیٹری موجود ہوتی ہے۔ یہ کیمرہ مریض کے جسم پر لگی ہوئی ریکورڈنگ ڈیوائس کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ کیمرہ ڈائجیسٹیو سسٹم کی ہائی ریزولوشن تصاویر لے کر باہر لگی ریکارڈنگ ڈیوائس کو بھیجتا رہتا ہے۔ یہ تصاویر ڈاکٹر کو مریض کے ڈائجیسٹیو سسٹم کی صورتحال کا جائزہ لے کر اس کی بیماری کے علاج میں مدد کرتی ہیں۔
واپس کریں