سامراجی دفاعی معاہدوں سے پاکستان کو کیا سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوئے؟
نیرند سنگھ سریلا (جو ہندوستان کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اے ڈی سی تھے) نے اپنی کتاب “The Untold Story of Partition” جو امریکن اور برطانوی سیکرٹ خط و کتابت و ڈاکومنٹس کی بنیاد پر لکھی گئی جو بعد میں کھلے) میں لکھا ہے کہ 1942 میں امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے برطانوی وزیر اعظم چرچل کو لکھا کہ آپ اعلان کریں کہ جنگ کے بعد برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر دے گا۔ ان کے خیال میں اس اعلان سے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کے دروازے کھل جائیں گے لیکن چرچل اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ابھی اور کئی سال وہ حکومت کریں گے۔
اس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ اگر برطانیہ نے ہندوستان چھوڑ دیا تو اس خطے میں برطانوی اور امریکی معاشی مفادات کا دفاع کیسے ہو گا کیونکہ ادھر سوویت یونین سے خطرہ تھا پھر پشین گلف، مشرق وسطیٰ اور بحر ہند میں مفادات تھے لہٰذا اس پر سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات شروع ہوئے تو کانگریس کی قیادت نے تو صاف انکار کر دیا کہ وہ کسی صورت میں کوئی اڈا قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر مسلم لیگ کی قیادت نے اتفاق کر لیا۔ لہٰذا آپ دیکھیں کہ پاکستان بننے کے چند سال کے اندر ہی پاکستان، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں 1954 میں بغداد پیکٹ، 1955 میں سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں بندھ گیا اور یاد رہے کہ یہ معاہدے صرف سوویت یونین اور کمیونسٹ ممالک اور سوشلسٹ تحریکات کے خلاف تھے، پاکستان کے دفاع کے لئے نہیں تھے کیونکہ اگر یہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہوتے تو پھر کم از کم 1965 اور 1971 کی بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے دفاع میں مدد کرتے۔
ان سامراجی دفاعی معاہدوں اور اپنی معیشت و سیاست کو مغربی ممالک سے نتھی کرنے سے پاکستان کو کیا سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوئے اور پھر ہم نے جو 78-1977 اور 1980 کی دہائی سے امریکہ کے اتحادی کے طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جو مذہبی جہادی پالیسی اختیار کی، اس کے پاکستان کی معیشت و سیاست اور پورے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔
اختر حسین کے کالم’’جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے‘‘سے اقتباس
واپس کریں