دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا عمران خان ماسٹر پلان رکھتے تھے؟
No image سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنا آرمی چیف لاؤں گا۔‘ بدھ کو اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’نواز شریف ہمیشہ میرٹ کی خلاف ورزی کر کے اپنی مرضی کا آرمی چیف لاتا رہا ہے۔ ان پر خوف طاری ہو گیا تھا کہ میں جنرل فیض کو لانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں 26 سال پہلے کہتا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری چور ہیں۔ میں نے اس وقت ان کے خلاف جہاد شروع کیا تھا۔‘ نواز شریف کا مقصد ہر ادارے کو کنٹرول کرنا ہے جو اس کی کرپشن کے لیے خطرہ بنتا ہے۔‘
اس سے قبل مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ عمران خان کا پاکستان پر حملہ کرنے کے فاشسٹ پلان تھے، وہ ہم سب کو نااہل کروانے والے تھے۔خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سنجیدہ معلومات تھیں۔ لوگوں کو بھول جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کہا گیا تھا کہ ہم نیب کے 100 جج اور رکھیں گے اور ان کیسز کو جلد از جلد نمٹائیں گے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ بڑی سطح پر نااہلیاں ہونے جا رہی تھیں۔ شہباز شریف سے شروع ہو کر نیچے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور ہم سب۔ اور صرف مسلم لیگ ن کے نہیں۔ جو ہمارا اتحاد ہوا وہ صرف اسی وجہ سے ہوا کہ عمران خان کے فاشسٹ (فسطائی) پلانز تھے اس ملک پر حملہ کرنے کے۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل سینیئر صحافی افتخار احمد نے پروگرام ‘خبر سے آگے’ میں بات کرتے ہوئے اسی خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ عمران خان نیب کورٹس کے نام پر سینکڑوں نئی بھرتیاں کرنے جا رہے ہیں، ان کا مقصد 2021 کے آخر یا 2022 کے اوائل میں تمام اپوزیشن قیادت کو نااہل کروا کر اگلا الیکشن کروانے کا ہے۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام نااہلیاں کروانے کے بعد انتخابات 2022 میں ہی ہو جائیں گے کیونکہ عمران خان سپریم کورٹ کے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ریفرنس کے ذریعے نکلوانے میں ناکام ہو چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر الیکشن مقررہ وقت پر ہوئے تو قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن چکے ہوں گے اور وہ شاید وسیع پیمانے پر دھاندلی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔
سینیر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہ بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ عمران خان کو اپریل میں ہی کیوں نکالنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی سے عمران خان اور مقتدر قوتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے، ادارے کی طرف سے ہدایات کے تحت نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں، رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور ہم کوئی اتحاد کی صورت نکال سکتے ہیں۔ عمران خان جو تاثر دے رہے تھے کہ آصف زرداری میری بندوق کی ‘نشست’ پر ہیں، بات اس کے بالکل الٹ تھی۔ وہ آصف زرداری کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے اور انہیں کہہ رہے تھے کہ آپ PTI کو سندھ میں کچھ جگہ دیں اور ہم آپ کو مرکز میں لے آئیں گے اور مل کر ہم مسلم لیگ ن کا مقابلہ کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں حامد میر کے مطابق آصف زرداری کو پیغام دیا گیا کہ "Let’s fix them”۔
زرداری صاحب نے جب مکمل طور پر انکار کر دیا تو زرداری اور بلاول صاحب سے براہِ راست رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بھول جائیں کہ الیکشن ہوگا، آپ نواز شریف اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایڈجسٹمنٹ کریں گے اور عمران خان کو نکال دیں گے، ایسا نہیں ہونا۔ "اپریل 2022 میں نئے آرمی چیف کی تقرری ہونی ہے اور اس کے بعد اسی سال اکتوبر، نومبر میں قبل از وقت انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ اس الیکشن میں دو تہائی اکثریت ملے گی عمران خان کو۔ اور جو اسمبلی اس الیکشن کے نتیجے میں بنے گی وہ آئین میں بڑی اہم ترامیم کرے گی۔ وہ ترامیم تو ہم کر لیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ اگلی ٹرم عمران خان کی ہوگی، اس سے اگلی ٹرم میں ہم بلاول بھٹو صاحب کو وزیر اعظم بنا دیں گے۔ یہ دس سالہ منصوبہ تھا۔”
پیپلز پارٹی کے جو لوگ اس بات چیت میں شامل تھے انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ یہ تو اٹھارھویں ترمیم ہی واپس کرنے والے ہیں اور ہمارے پاس تو وقت ہی نہیں ہے۔ چھوٹے صوبوں کو جو تھوڑا بہت حق ملا ہے، وہ بھی ختم ہوگا۔ سینیئر صحافی نے کہا کہ اس پر پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ PDM کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے جائیں، زرداری صاحب نے پہلے شہباز شریف سے بات کی، پھر نواز شریف سے براہِ راست رابطہ ہوا۔ "میری اطلاعات کے مطابق اٹھارھویں ترمیم پر مسلم لیگ ن کو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن 1973 کا آئین ان کا مسئلہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ واحد دستاویز ہے جس نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے”۔
عمران خان صاحب کو بالکل یقین نہیں تھا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد آئے گی۔ مقتدر حلقے بھی نہیں سمجھتے تھے کہ یہ تحریکِ عدم اعتماد واقعی آ جائے گی۔ تاہم، یہ نیوٹرل رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی، شاہ زین بگٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق وغیرہ علیحدہ نہیں ہو رہے تھے۔ عمران خان کی جماعت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ عمران خان کو چھوڑ دیں اور اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مل جائیں۔
پیپلز پارٹی کے لوگوں کو رابطہ کر کے کہا گیا کہ آپ جو مطالبات رکھیں گے وہ پورے ہوں گے لیکن آپ یہ عدم اعتماد واپس لیں۔ ن لیگ کے لوگوں کو کہا گیا کہ آپ نے کسی صورت یہ عدم اعتماد کامیاب نہیں کروانی۔ لیکن جب اس میں سے کچھ بھی نہ ہوا تو عمران خان نے بذریعہ پرویز خٹک جنرل باجوہ سے رابطہ کیا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد رکوائی جائے اور وہ قبل از وقت انتخابات کے لئے تیار ہیں۔ حامد میر کے مطابق جنرل باجوہ نے یہ پیغام اپوزیشن تک پہنچایا تو انہیں کہا گیا کہ آپ تو خود کو نیوٹرل کہہ رہے تھے اور اب ہمارے پاس ان کے پیغامات لا رہے ہیں۔ اس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم بالکل نیوٹرل ہیں، یہ صرف پیغام آپ تک پہنچایا گیا ہے اور ہمیں زبردستی بھیجا گیا ہے۔
حامد میر نے مزید انکشاف کیا کہ کچھ لوگوں نے اتحادیوں کو misguide کرنے کی کوشش کی لیکن جب ادارے کے علم میں یہ بات آئی تو انہیں بھی manage کیا گیا کہ سب کو نیوٹرل رہنا ہوگا۔ جب سارے نیوٹرل ہو گئے تو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ اب جب یہ کامیاب ہو گئی تو ادارے پر تنقید شروع ہو گئی۔ اب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ادارہ تینوں نہیں بتا سکتے کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔ ہوا تو یہ کہ عمران خان نے ادارے کا کندھا استعمال کر کے خود کو بچانے کی کوشش کی اور ادارہ اپنا کندھا بچاتا رہا۔

بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں