دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستانی عوام۔ قوم نہیں صرف ہجوم۔محمد مشتاق ایم اے
No image آج کل ہماری ملکی سیاست کے میدان میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آنے والے الیکشن، جو آئین و قانون کے مطابق اسی سال اکتوبر میں ہونے ہیں، کس مردم شماری کے تحت کرائے جائیں؟ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں۔اس حوالے سے پچھلے کچھ دنوں سے حکومت کے وزیر مشیر کچھ کہہ رہے ہیں، جب کہ وزیراعظم کچھ اور ہی فرما رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا نقطہ نظر اور ہے جب کہ ایم کیو ایم کا اونٹ کسی اور کروٹ جاکر بیٹھتا ہے۔ الغرض ہر کوئی اپنے مفاد کے حساب سے نقطہ نظر بنا کر بیٹھا ہے اور سب کو ملک کا مفاد ان کی رائے میں ہی پنہاں نظر آتا ہے۔
اب ظاہر ہے الیکشن دو مردم شماریوں کے تحت تو ہونے سے رہے اور اگر پرانی یعنی 2017 کی مردم شماری کے تحت ہوتے ہیں تو جو نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کروانے کے حق میں ہیں، وہ نتائج کو قبول نہیں کریں گے اور دوسری صورت میں اگر الیکشن 2023 کی مردم شماری کے تحت ہوتے ہیں تو اس کے مخالف والے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ گویا ہر دو صورتوں میں الیکشن کے نتائج متنازع ہی رہیں گے۔ اس حوالے سے ہماری قوم زیادہ خوش فہمی میں نہ رہے کیوں کہ ان سے کسی نے نہیں پوچھنا کہ آپ کیا کہتے ہیں یا آپ کی بھی کوئی رائے ہے یا نہیں؟
اور ویسے بھی رائے قوم کی ہوتی ہے، ہجوم کی نہیں اور ہجوم کی رائے یا تو ریفرنڈم میں لی جاتی ہے یا پھر الیکشن کی پرچی کی صورت میں اور دونوں صورتوں میں نتیجے کے طور پر ہجوم کے ہاتھ خالی کے خالی ہی رہتے ہیں اور وہ پہلے کی طرح حکومت کے آگے سوالی ہی بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔
پے در پے الیکشن ہونے کی وجہ سے اب عوام کی نفسیات ہی ایسی بن چکی ہے کہ ان کےلیے صرف یہی خوشی کافی ہے کہ الیکشن کی مہم کے دوران کچھ وڈیرے ان کے غریب خانے پر آئے اور چائے یا کولڈ ڈرک پی لی اور ان کو مسکراتے چہرے سے جھک کر ملے بھی۔ عوام کو آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ان کا ملنا، مسکرانا، جھکنا اور پچھلے چند سال سے فوت شدگان کی فاتحہ پڑھنے کا رواج بس الیکشن کی پرچی باکس میں ڈالنے تک ہے۔ گویا چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات، جس کی صبح آج تک نہیں ہوئی اور اگر عوام کی یہی نفسیات رہی تو آئندہ بھی بلی چوہے کا کھیل ہمارے ملک میں نہ صرف چلتا رہے گا بلکہ مزید پھلتا پھولتا رہے گا۔
ہمارے حکمرانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں حلف اٹھانے کے بعد سے ہی اپنی کرسی یعنی حکومت بچانے کی فکر شروع ہوجاتی ہے اور ان کےلیے سب سے بڑا معرکہ یہی ہوتا ہے کہ اپنی حکومت کا مقررہ وقت کیسے پورا کرتے ہیں۔ کبھی ایک کی منت سماجت اور کبھی دوسرے کی، ایک کا منہ سیدھا ہوتا ہے تو کسی دوسرے کا لٹک جاتا ہے اور کچھ عرصے میں اتحادیوں کی طرف سے حکومت سے نکلنے کی دھمکیاں شروع ہوجاتی ہیں، جس سے حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور اس ساری کشمکش میں عوام مہنگائی کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی مسائل کی چکی میں پسنا شروع ہوچکے ہوتے ہیں۔ وہ حکمران جو الیکشن سے قبل جھک کر ملے تھے اور ہمارے گھر سے پانی بھی پیا تھا اور ہمارے گزر جانے والے پیاروں کےلیے فاتحہ خوانی بھی کی تھی، ان کے گرد مفاد پرستوں، مخالفوں اور اتحادیوں کا شکنجہ اس قدر سخت ہوجاتا ہے کہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت بچے تو جان بچے اور اس دوران عوام انہیں چیونٹی کے برابر بھی نظر نہیں آتے۔
ہر حکومت میں بڑوں کے دائیں بائیں رہنے والے اور ان کی خاطر ہر جائز و ناجائز کام کرنے والے ان لوگوں سے بہت فائدے اٹھا لیتے ہیں اور ان کی تمام انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ انہیں مطلب ہوتا ہے تو صرف اپنے مفاد سے، وہ اپنی پارٹی کی حکومت کے دوران جتنا کچھ نچوڑ سکتے ہیں، نچوڑ لیتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں اندازہ ہوتا ہے ان سب نے عوام کی جو خدمت کی ہے وہ اگلی بار ان کو ووٹ نہیں دیں گے، اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے سارے کام اسی دور حکومت میں نکلوا لیں کیوں کہ کیا پتہ ’’کل ہو نہ ہو‘‘۔
یہ عوام جسے ہجوم بھی کہا جاتا ہے، صرف اس وقت صحیح معنوں میں قوم کا روپ دھاریں گے جب شخصیت پرستی سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آئیں گے۔ ہمارا 24 کروڑ پر مشتمل ہجوم یہ بات ذہن نشین کرلے کہ صرف خوشنما نعروں سے کوئی تبدیلی آنی ہوتی تو کب کی آچکی ہوتی۔ جب ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہو اور وہ عوام کے بجائے اپنے مفاد کے پہرے دار ہوں تو وہ تعلیم، صحت، روزگار اور خودداری کا انقلاب کیسے لے کر آئیں گے۔
ہوش کے ناخن لیجیے، شخصیت پرستی سے نکلیے۔ کسی کے اندھے پیروکار نہیں بنیں اور ہجوم کے بجائے ایک قوم بن کر آئندہ الیکشن میں اپنا کردار ادا کیجیے۔
واپس کریں