دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خواتین کا عالمی دن اور مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین!
No image تحریر۔ نجیب الغفور خان۔(کشمیر لیبریشن سیل )
مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی تسلط کی وجہ سے مسلسل خوف و دہشت، عدم تحفظ، ظلم و تشدد، سوگ اوراذیت کا شکار ہیں
1989سے اب تک 2,380سے زائد کشمیری خواتین شہید.11,250کی بے حرمتی کی گئی
مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے
آسیہ اندرا بی، فہمیدہ صوفی سمیت متعدد خواتین غیر قانونی طورپر جیلوں میں نظربند ہیں
کشمیری خواتین عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے لئے یہ دن کب منایا جائیگا؟
نجیب الغفور خان، جموں و کشمیر لبریشن سیل

8 مارچ پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدنہ صرف خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ہے بلکہ ان کی معاشرتی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا اورخواتین کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جدوجہد کو سلام پیش کرنا ہے۔1908ء میں امریکا کی گارمنٹس فیکٹری کی ہزاروں خواتین نے کم تنخواہوں، کام کے اوقات اور صنفی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس مظاہرہ کے دوران احتجاج میں شریک خواتین پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور پتھر برسائے گئے۔ اس سانحہ کی مذمت کے طور پر28فروری 1909ء کو سوشل پارٹی آف امریکا کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کے بعد امریکا میں پہلی مرتبہ 28فروری کو ’خواتین کا دن منایا گیا۔اس دن لاکھوں خواتین نے ملازمتوں میں عورتوں کی شمولیت، ووٹ دینے کے حق، کم اجرت اور صنفی امتیاز برتے جانے کے خلاف نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کی۔1911ء کو تاریخ میں پہلی مرتبہ 8مارچ کو عالمی یوم خواتین منانے کی مشترکہ طور پر ابتدا ہوئی اور دوسال بعد 1913ء میں خواتین کے عالمی دن کے لیے 8مارچ کی تاریخ مخصوص کردی گئی۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہرسال 8مارچ کے دن دنیا بھر میں خواتین کو مساوی حقوق دلوانے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جب بھی خواتین کے حقوق کا ذکر آتا ہے وہاں مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کی عظیم تاریخ لکھنے والی کشمیری خواتین کو سلام کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں جو 10لاکھ جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فورسز کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989ء سے اب تک 2,380سے زائد کشمیری خواتین سمیت 95,980افرادکو شہید کیا۔1989ء میں شروع کی گئی جدوجہد کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہزاروں خواتین کے ساتھ زیادتی،تشدد، معذور اور قتل کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین بے حرمتی کا شکار ہوئی ہیں - کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989ء سے اب تک 22, 942 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 11, 250خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں - 1991ء میں 23اور24فروری کی درمیانی شب انڈین آرمی نے وادی کشمیر کے کنن اور پوش پورہ گاوں میں سرچ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر 23سے 100کشمیری خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔اورمردوں کے ساتھ بھی بے دردری سے جسمانی تشددکیاگیا۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شوپیاں میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں. جبکہ بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔
ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں ایک اسکالر بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو ''کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر'' قرار دیا ہے۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ عصمت دری کا استعمال کشمیریوں کے خلاف مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور فوجیوں کے اعتراف کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں، بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہیں ہیں۔8 جولائی 2016 کوبرہان وانی کی شہادت کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے پرامن مظاہرین پر گولیوں اور پیلٹ گنوں کے وحشیانہ استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے انشا مشتاق، الفت حمید، شکیلہ بانو، تمنا، شبروزہ میر، رافعہ بانو اور عفرہ شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 19ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہو ئی ہے۔مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہزاروں خواتین کے بیٹوں، شوہروں اور بھائیوں کو حراست کے دوران لاپتہ اور قتل کر دیا ہے۔دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم کے مطابق گزشتہ33 برس کے دوران10ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیاگیا ہے جبکہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین غیر قانونی طورپر نظربند ہیں۔ انہیں صرف کشمیریوں کی خواہشات کی نمائندگی کرنے پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے،ہزاروں کشمیری مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کی گھر واپسی کی منتظر ہیں جبکہ ہزاروں خواتین اپنے لاپتہ شوہروں کی راہ تک رہی ہیں۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف آزادی کی جنگ لڑتی کشمیری خواتین کے کارنامے یوں تو دنیا بھر کی نظروں سے اوجھل ہیں نہ انہیں آسکر ایوارڈ ملتا ہے اور نہ ہی یہ نوبل امن انعام کے لیئے منتخب کی جاتی ہیں، کشمیر میں خواتین بھارتی تسلط کی وجہ سے مسلسل خوف و دہشت، عدم تحفظ، ظلم و تشدد، سوگ اوراذیت کا شکار ہیں۔ بھارت خواتین کی عصمت دری کو مقبوضہ علاقے میں ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور کشمیری خواتین کو ان کے پیاروں کی دوران حراست جبری گمشدگیوں کے ذریعے ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارتی فوجی کشمیریوں کی تذلیل کیلئے خواتین کوروزانہ کی بنیاد پر جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔
مقبوضہ علاقے میں جاری خونریزی پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔نہتے کشمیریوں کو امید ہے کہ ان کی آوا زبالآخر عالمی برادری تک پہنچے گی اور وہ بھارتی فوجیوں کو کشمیری خواتین کے خلاف گھناؤنے اور انسانیت سوز جرائم سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔لیکن پھر بھی اپنے وطن کی مٹی کے لئے یہ آج بھی پر عزم ہیں بیٹوں، بھائیوں اور شوہر کے درد میں مبتلا کشمیری خواتین آج بھی عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے لئے یہ دن کب منایا جائیگا؟


واپس کریں